بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات مضبوط رہیں گے: سعودی عرب

ایک خصوصی انٹرویو میں عادل الجبیر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ’مضبوط، متحرک اور کثیر الجہتی‘ ہیں اور بائیڈن انتظامیہ کے دوران ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر  نے نشاندہی کی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات 80 سالوں سے قائم ہیں اور یہ عالمی استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں ایک اہم عنصر رہے ہیں۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ جو بائیڈن کی حکومت کے دوران بھی واشنگٹن اور ریاض کے مابین دوستانہ تعلقات جاری رہیں گے۔

عرب نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں عادل الجبیر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ’مضبوط، متحرک اور کثیر الجہتی‘ ہیں اور بائیڈن انتظامیہ کے دوران ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

انہوں نے کہا: ’بائیڈن انتظامیہ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ سعودی عرب کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور یہ کہ امریکہ بیرونی خطرات کے خلاف سعودی عرب کے دفاع میں مدد فراہم کرے گا۔ لہذا میں واقعتاً اس (بائیڈن) انتظامیہ اور سابقہ انتظامیہ کے مابین سعودی عرب سے وابستگی کے معاملے میں زیادہ تبدیلی نہیں دیکھ رہا۔‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات 80 سالوں سے قائم ہیں اور یہ عالمی استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں ایک اہم عنصر رہے ہیں۔

عادل الجبیر نے کہا کہ ’امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت سٹریٹجک ہے۔ ہمارے معاشی مفادات اور مالی مفادات ایک ہیں اور ہم شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔‘

’ہم خطے میں استحکام لانے کے لیے کام کر رہے ہیں، چاہے وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین امن لانے کی کوشش ہو یا لبنان، شام، عراق، ایران اور افغانستان میں ایسا کرنے کی کوشش۔ ہم نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے سوڈان کو مستحکم کیا ہے، ہم لیبیا میں جنگ ختم کرنے اور جی 5 ممالک کی جانب سے دہشت گرد تنظیم بوکو حرام کے خلاف لڑائی میں مدد دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی پر بات کرتے ہوئے سعودی وزیر نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ انہوں (امریکہ) نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ایران کو جوہری معاہدے پر واپس لانا چاہتے ہیں اور وہ ایسا جوہری معاہدہ چاہتے ہیں جو امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے بقول زیادہ مضبوط اور طویل مدتی ہو۔ ہم آغاز سے ہی ایسے معاہدے کی حمایت کر رہے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جوہری معاہدے سے ایسی شقیں ختم کی جائیں جن سے ایران کو غیر یقینی طور پر یورینیئم کی افزودگی سے روکا جا سکے اور جامع معائنے کا میکانزم بنایا جائے۔

الجبیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ سعودی تیل کی تنصیبات پر حالیہ حملوں کے تانے بانے بھی ایران سے ملتے ہیں۔

’سعودی عرب پر داغے گئے تمام میزائل اور ڈرون ایرانی ساختہ ہیں یا ایران کی جانب سے فراہم کردہ ہیں جن میں سے کئی جیسا کہ ہم نے کہا تھا، شمال سے اور کئی سمندر کے راستے سعودی عرب پر حملہ آور ہوئے تھے۔‘

ان کے خیال میں امریکی کی جانب سے حوثی باغیوں، جنہوں نے اسی روز سعودی شہری ہوائی اڈے پر حملہ کیا تھا، کو بین الاقوامی دہشت گردی کی فہرست سے ہٹانے کے فیصلے سے یمن کو امداد فراہم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

عادل الجبیر نے مزید کہا کہ ’ہم نے یہ بات یورپ اور امریکہ اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی پر بھی واضح کردی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان دہشت گردی کی فہرست میں شامل ہیں، اس سے افغانستان آنے والی امداد متاثر نہیں ہوتی۔ شام میں داعش اس فہرست میں شامل ہے لیکن اس سے شام جانے والی امداد بند نہیں ہوئی اسی طرح لبنان، صومالیہ اور جی 5 ممالک میں جانے والی امداد پر فرق نہیں پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی وزیر نے اصرار کیا کہ یہ مسئلہ حوثیوں کے ساتھ ہے، وہ امداد چوری کرتے ہیں۔ وہ اسے اپنی جنگی ضروریات کے لیے فروخت کر دیتے ہیں۔ انہوں نے نو ، 10 ، 11 سال کی عمر کے نوجوان لڑکوں کو بھرتی کر کے میدان جنگ میں جھونک رکھا ہے جو کہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

’وہ شہریوں کے خلاف اندھا دھند بیلسٹک میزائل اور ڈرونز سے حملہ کرتے ہیں خواہ وہ سعودی عرب میں ہو یا یمن میں۔ انہوں نے سینٹرل بینک کو بھی لوٹ لیا۔ انہوں نے پرامن تصفیے کے حصول یا اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے ساتھ تعاون کی ہر کوشش کو مسترد کردیا ہے۔‘

’لہذا ہمارا حوثیوں کے حوالے سے پیغام بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ ان کا تعلق دہشت گردی کی فہرست سے ہے اور کسی کو بھی ان کے ساتھ معاہدہ نہیں کرنا چاہیے۔‘

عادل الجبیر نے کہا کہ ایرانی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یمن میں امن ناممکن ہے۔

’ہمیں یقین ہے کہ وہاں ایک سیاسی حل نکل سکتا ہے۔ ہم اس سیاسی حل کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کئی سال قبل اس تنازع کے آغاز سے ہی ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوبین کے ذریعے اس مسٔلے کے حل تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش اور ہر اقدام کی حمایت کی ہے۔ ہم نے یمنی حکومت کو متحد کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ ہم نے 17 ارب ڈالر سے زیادہ کی انسانی امداد فراہم کی ہے۔ ہم نے یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ یمن میں واحد حل جی سی سی کے اقدام، یمنی قومی مکالمے کے فیصلوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2216 کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

الجبیر نے سعودی عرب کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کا بھی دفاع کیا جس پر دنیا کے کچھ حصوں سے تنقید ہوتی رہی ہے۔

’ہمارا نظریہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہتری لائی گئی ہے۔ 50 سال پہلے ہمارے پاس خواتین کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا۔ آج کالجوں میں 55 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔ 70 سال پہلے ہمارے ہاں شاید 90 فیصد نا خواندگی تھی۔ آج ہر سعودی شخص پڑھ لکھ سکتا ہے اور ہر بچہ سکول جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا