’نابالغ‘ قیدی کی سزائے موت 28 برس بعد عمر قید میں تبدیل

چند روز قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے جرم کے وقت نابالغ محمد انور کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی ہے۔

عدالت نے محمد انور کے اوسیفیکیشن ٹیسٹ پر انحصار کرتے ہوئے سزا میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا (پکسابے)

چند روز قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے جرم کے وقت نابالغ محمد انور کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی ہے۔

بینچ میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان شامل تھے۔

عدالت نے محمد انور کے اوسیفیکیشن ٹیسٹ پر انحصار کرتے ہوئے سزا میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ ٹیسٹ 2002 میں ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے حکم پر جووینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000 اور صدارتی حکم نامہ 2001 کی بنیاد پر کرایا گیا تھا۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے ترجمان نے بتایا کہ محمد انور کا تعلق وہاڑی سے ہے۔ انہیں  1993 میں دو بھائیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق اس وقت انور کی عمر 17 برس تھی۔ ہائی کورٹ نے سزا کے خلاف انور کی اپیل جولائی 2001 میں جبکہ سپریم کورٹ نے اکتوبر 2007 میں مسترد کر دی تھی۔  

محمد انور کے بڑے بھائی محمد سرور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ  انور اور میرے دو بڑے بھائیوں کی علاقہ پنچایت میں کسی بات پر فریقین کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ جس کے بعد مخالف فریق کے دس افراد نے انور کے گھر پر پہنچ کر جھگڑا شروع کیا اور میری والدہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔

’انور اور بڑے بھائیوں کو بھی غصہ آگیا اور جھگڑا بڑھ گیا۔ اس جھگڑے کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک ماہ بعد دم توڑ گیا۔‘

محمد سرور بتاتے ہیں کہ واقعے میں نامزد میرے باقی دو بھائی تو بری ہو گئے لیکن ایڈیشنل سیشن جج وہاڑی نے انور کی کم عمری کے باوجود اسے سزائے موت سنا دی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے انور سے ملنے ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی جاتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ اپنی تمام تر جائیداد بیچ کر انور کے کیس پر لگا دی۔

’اس دوران والدین بھی وفات پا گئے جبکہ وہ دو بڑے بھائی جو اس کیس میں انور کے ساتھ نامزد ہوئے تھے وہ بھی دنیا سے چل بسے۔‘

سرور کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے عدالت جلد انور کو رہا کر دے گی جس کے بعد وہ ان کو اپنے ساتھ وہاڑی لے آئیں گے اور ان کا علاج کروائیں گے۔  

28 برس قید کے دوران محمد انور کو متعدد ڈیتھ وارنٹس کا سامنا کرنا پڑا جو جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی کوششوں سے موخر ہوئے۔ قید کے دوران انور کی صحت بری طرح متاثر ہوئی، متعدد دل کے دوروں کے باعث انور کے جسم کا بایاں حصہ جزوی طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے ترجمان اور ریسرچ اینڈ کمیونیکیشن آفیسر محمد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے پاس محمد انور کا کیس 2015 میں آیا تھا جب ان کے بلیک وارنٹ جاری ہو گئے تھے۔ ان کی موت کی سزا پر عمل درآمد رکوانے کے لیے ہم نے عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم اس وقت ان کی سزائے موت پرعمل درآمد کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 2016 میں ہم نے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن جمع کروائی جس پر سماعت کے بعد اب یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کیونکہ محمد انور کا کیس نچلی عدالتوں اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے پاس ایک سے زائد بار جا چکا ہے لیکن واضح شواہد کے باوجود ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ کیس اس لیے بھی اہم ہے کہ ان سے پہلے محمد اقبال رانجھا جنہیں گذشتہ برس بری کیا گیا وہ بھی جرم کے وقت نابالغ تھے۔ ان کیسسز میں جووینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس آنے سے پہلے سزائے موت سنائی گئی اور اس کے بعد 2001 میں صدارتی نوٹفیکیشن جاری ہوا۔ اس کے تحت رعایت حاصل کرنے کے لیے انہیں برسوں انتظار کرنا پڑا۔

شعیب نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے اسبات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ 2002 میں انور کا آسیفیکیشن ٹیسٹ ہوا تب سے اب تک یہ مختلف عدالتوں اور فورمز پر آتے رہے ہیں لیکن ان کے معاملے میں جو ریکارڈ موجود تھا اسے سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ نہیں کیا گیا۔

’جج صاحبان نے اس بات کو بھی مدنظر رکھا ہے کہ محمد انور 28 برس سے جیل میں ہیں اور آسیفیکیشن ٹیسٹ جو ہوم ڈیپارٹمنٹ نے کروایا تھا اس کے مطابق بھی انور جرم کے وقت 18 برس سے کم عمر کے تھے اس لیے انور کو اس چیز کا فائدہ ملنا چاہیے اور اسی وجہ سے ان کی سزائے موت کو ختم کیا گیا ہے۔‘

ایگزیکٹو ڈائریکٹر جسٹس پراجیکٹ پاکستان بیرسٹر سارا بلال کے خیال میں ’پاکستان نے متعدد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کے باعث انسانی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کے تحت عائد ہونے والی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مدد ملی ہے۔‘

’گذشتہ برس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھی جرم کے وقت نابالغ قیدی محمد اقبال کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں جووینائل جسٹس ایکٹ 2018 کے تحت عمر کے تعین کے حوالے سے تمام پروٹوکول پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے تاکہ ایسے تمام قیدیوں کے حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان