تحریکِ لبیک: حکومت نے کہاں کہاں غلطیاں کیں؟

عمران خان کئی ماہ پہلے فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ ان کے فرانسیسی میگزین کے دفاع پر بیانات کی جنگ کی اور اب امن عامہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکام نے راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والے راستہ بند کر دیا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی تھی کہ پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکے پر لڑائی کے نتیجے میں انہیں آسان کامیابی حاصل ہوگی۔ انہیں ایسا لگتا تھا کہ وہ ملک میں قدامت پسند عناصر کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اسلام کا دفاع کرنے والے دکھائی دیں گے۔ لیکن یہ سب بظاہر الٹا ہو گیا ہے۔

گذشتہ ایک ہفتے سے احتجاج نے پاکستان کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس میں پولیس افسران کو قتل اور یرغمال بنایا گیا جبکہ فرانسیسی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دینے کا ’فوری‘ قدم اٹھایا۔

عمران خان کئی ماہ پہلے فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ ان کے فرانسیسی میگزین کے دفاع پر بیانات کی جنگ کی اور اب امن عامہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جب میکروں نے کھلے عام میگزین کی حمایت کی تو عمران خان نے ایک فرانسیسی رہنما پر اسلام کی توہین کرنے کا الزام لگایا اور اقوام متحدہ سے خطاب کو مغرب پر طنز کرنے کے موقعے کے طور پر استعمال کیا۔
لیکن مذہبی عناصر کو مطمئن کرنے کی بجائے عمران خان کی شکایت نے بعض مبصرین کے خیال میں صرف انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے، کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا۔

سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے خیال میں وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ بنیاد پرست قوتوں کو خوش کرنا آسان کام نہیں ہے ’کیونکہ جب آپ انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اور زیادہ مطالبات کرتے ہیں۔ اب تک وہ توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ کسی بھی پاکستانی سیاست دان یا فوجی آمر اس خیال کو چیلنج نہیں کر سکتے کہ اسلام اور پیغمبر اور خاص طور پر ان کی اپنی شخصیت کی عزت اور تقدس ان کے لیے اہم نہیں ہے۔

عمران خان کی بیان بازی نے ملک بھر میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا آغاز کیا اور نئی جماعت ٹی ایل پی نے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر بھیج دیا۔ غصہ جلد تشدد میں بدل گیا۔

گذشتہ برس ستمبر میں ایک پاکستانی شہری نے اقوام متحدہ کے جنرل سربراہ اجلاس میں عمران خان کی جانب سے اسلاموفوبیا کے خلاف آواز اٹھانے کے چند روز بعد ہی ایک پاکستانی شہری نے پیرس میں چارلی ہیبدو کے سابق دفتر کے باہر دو افراد پر چاقو کے وار کیے۔ حملہ آور نے بعد میں اپنے آپ کو خادم حسین رضوی سے متاثر بتایا۔  
پاکستان میں احتجاج گذشتہ نومبر اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب تحریک لبیک نے اسلام آباد میں سڑکیں بلاک کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تشدد کا خاتمہ اس وقت ہوا جب خان کی حکومت نے مبینہ طور پر ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے پر رضامندی ظاہر کی جس میں فرانسیسی سفیر کو پارلیمانی منظوری ملنے کے بعد نکالا جانا تھا۔
لیکن گذشتہ ہفتے ٹی ایل پی نے کہا کہ حکومت نے اس معاہدے سے انحراف کیا ہے۔ اس معاہدے کے بارے میں حکام نے ابہام دور نہیں کیا ہے۔

تحریک کے نئے رہنما سعد رضوی نے اسلام آباد پر مارچ کا اعلان کیا جن کی گرفتاری پر ملک بھر میں ہنگامہ آرائی ہوئی تو عمران خان کی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ٹی ایل پی پر باضابطہ طور پر پابندی عائد کر دی اور انہیں موثر طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔

اختتام ہفتہ عمران خان نے ٹویٹ کی کہ کوئی بھی قانون اور آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا اور انہوں نے مغربی ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ توہین آمیز تقریر کو غیر قانونی قرار دیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے واضح کیا کہ وہ ان کے طریقوں سے تو نہیں لیکن ان کے نظریے سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن فیلو مدیحہ افضل نے کہا کہ پاکستانی ریاست نے کئی دہائیوں سے اس نظریے کو سرگرمی سے فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے ٹی ایل پی پیدا ہوئی۔ ’لیکن اس پالیسی پر چلنا ایک مشکل کام ہے: کارروائی کرتے وقت گروپ کے نظریے اور مطالبات سے انکار نہ کرنا۔‘

تحریک لبیک کے دباؤ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی جلد طلب کر لیا گیا۔ حکومت کے پاس بہت کم راستے ہیں اگر وہ اس جماعت کے خلاف مزید سخت کارروائی کرتی ہے تو ملک میں وسیع پیمانے پر تشدد پھوٹ سکتا ہے۔

تحریک انصاف حکومت کے اہلکار عمران خان کی حکمت عملی کو کامیاب قرار دیتے ہیں۔

حکومت ٹی ایل پی کے کچھ مطالبات مان سکتی ہے اور مذہبی عناصر کو مستقبل میں تشدد کو ایک طاقتور سودے بازی کے طور پر استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست