’جائیں شاہ صاحب انہیں منائیں‘

یہ شاہ صاحب اور کوئی نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ ہیں۔

سید خورشید شاہ 1990 میں پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور تب سے پارلیمانی سیاست میں پیش پیش ہیں۔ تصویر۔اے ایف پی

قومی اسمبلی اجلاس کے  دوران  تلخ کلامی، ہنگامہ آرائی یا احتجاج کی صورت میں سپیکر کی جانب سے جو جملہ سب سے زیادہ سنے کو ملتا ہے وہ ہے ’جائیں شاہ صاحب !!! انہیں منائیں۔ شاہ صاحب!!!! ایوان کے ماحول کو بہتر بنانا آپ سے زیادہ اور کون جانتا ہے۔‘

یہ شاہ صاحب اور کوئی نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ ہیں۔ ایک طویل عرصے سے یہ ہی دیکھا جا رہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی چاہے مسلم لیگ (ق) کے امیر حسین ہوں، پاکستان پیپلز پارٹی کی فہمیدہ مرزا یا پھر مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق مفاہمت کے لیے سب کی زبان پر سید خورشید شاہ کا ہی نام اکثر ہوتا ہے۔

دھیمے مزاج کے باعث ان سے ذاتی اختلاف رکھنے والوں کی فہرست کافی محدود ہے۔ 1990 میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ تب سے لے کر آج تک خورشید شاہ نے مفاہمتی سیاست کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا ہے۔ گذشتہ حکومت کے دور میں جب شاہ صاحب قائد حزب اختلاف تھے تو پارلیمنٹ ہاؤس میں ان کا چیمبر ورکنگ جرنلسٹوں کا ڈیرہ بنا رہتا تھا۔ جب پارلیمنٹ سے خبروں کا بازار گرم ہوتا تو تمام رپورٹرز صبح سے ہی ان کے چیمبر میں بیٹھ جاتے۔ شاہ صاحب چائے بسکٹ کے ساتھ اپنے تجزیوں اور تبصروں سے ہماری خاطر تواضع کرتے۔ باہر آکر سب خاطر تواضع بھول کر اپنی اپنی مرضی کی خبر بنا لیتے۔ خورشید شاہ محض سیاست میں سیانے نہیں بلکہ صحافت کی باریکیاں بھی خوب جانتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ٹی وی اینکرز کے مقابلے میں ورکنگ جرنلسٹ کو ترجیح دی۔

پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کو چاہے محترمہ بینظیر بھٹو ہوں یا آصف علی زرداری شاہ صاحب کی صلاحیتوں پر ہمیشہ اعتماد رہا ہے۔ پی پی پی جب بھی حکومت میں آئی بدقسمتی سے مخلوط حکومت بنی جس کی وجہ سے قومی اسمبلی سے بجٹ، آئینی ترامیم یا کوئی بل پاس کروانا اس کی حکومت کے لیے کسی چیلنچ سے کم نہ ہوتا تھا۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شاہ صاحب کو بڑی مہارت حاصل رہی ہے۔ وہ حزب اختلاف کے ارکان کو آگے پیچھے کرنا خوب جانتے ہیں۔ اتحادیوں کی حاضری کیسے یقنی بنانا ہے یہ ٹاسک شاہ صاحب کو ہی دیا جاتا جسے وہ باآسانی پورا کر لیتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خورشد شاہ مفاہمت اور مفاد میں فرق خوب جانتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے تو ایسے کہ اٹھارویں ترمیم پیپلز پارٹی حکومت کا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ اس ترمیم کے تحت کئی وزارتوں اور ان سے منسلک اداروں کو صوبوں کے ماتحت کیا جانا تھا مگر خورشید شاہ نے جو اس وقت لیبر اینڈ ورکس کے وفاقی وزیر تھے تین نہایت اہم اداروں کو صوبوں کے حوالے کرنےکی مخالف کر دی۔ یہ شاہ صاحب کی وزارت کے  مفاد میں تھا۔ وہ تین ادارے جن میں ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور اوورسیز پاکستانی فاونڈیشن شامل ہیں آج تک خورشید شاہ کی مخالف کے باعث وفاق کے پاس ہیں۔ اگر کبھی مفاہمت پر مفاد غالب بھی آجائے تو کوئی انہونی بات نہیں۔ مگر یہ بات تو مانے والی ہے کہ پارلیمنٹ کو ان جسے ارکان کی بڑی ضرورت ہے تاکہ مار دھاڑ، شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کی سیاست کو شکست دی جاسکے۔ شاہ صاحب کا مفاہمتی طرزِ سیاست ہی کچھ ایسا ہے اگر کسی کو فائدہ نہ دے سکے تو نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر