زیر تعمیر حکومتی بجٹ اور اکرم کی پریشانیاں

اکرم سوچتا ہے کہ وہ اسی بجٹ کو کامیاب مانے گا جس سے اس کی آمدن بڑھے، اخراجات کم ہوں اور اس کے بچے پیٹ بھر کر تین ٹائم کھانا کھا سکیں۔

راولپنڈی کے بازار میں ایک مزدور کھانا پکانے کا تیل ایک  سے دوسرے مقام پر منتقل کر رہا ہے (اے ایف پی)

نیا وفاقی بجٹ زیر تعمیر ہے۔ یہ خبر اکرم کے لیے کسی پریشانی سے کم نہیں تھی کیونکہ پچھلے تین سالوں سے جب بھی حکومت بجٹ پیش کرتی ہے اکرم کے گھر کا بجٹ آوٹ ہو جاتا ہے۔

پہلے سال میں ایک مرتبہ بجٹ آتا تھا عوام یہ جھٹکا کسی طرح برداشت کر جاتی تھی لیکن اب ایک سال میں چار بجٹ آنے کا رواج پڑ چکا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکرم دل کا مریض بن چکا ہے۔

ہر وقت کی پریشانی اور ڈپریشن اسے سانس نہیں لینے دیتی۔ اس نے خبروں میں سنا کہ حکومت نے بجٹ بنا کر منظوری کے لیے آئی ایم ایف کو بھجوا دیا ہے۔ پہلے وہاں سے منظوری ہو گی پھر پاکستانی پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے گا۔

جو بجٹ بھیجا گیا ہے اس میں سالانہ ٹیکس ہدف 5.8 کھرب روپے رکھا گیا ہے جبکہ پچھلے سال کی ٹیکس آمدن تقریباً 4.7 کھرب روپے ہے۔ نئے سال کے ٹیکس اہداف پورے کرنے کے لیے 380 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے۔

طے کیا گیا ہے کہ ٹیکس ہدف آئی ایم ایف کے دیے گئے ہدف سے 163 ارب روپے کم ہے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آئی ایم ایف 5.8 کھرب روپے کے ٹیکس ہدف پر اتفاق نہ کرے۔

اکرم سوچنے لگا کہ اس کا مطلب ہے کہ ٹیکس ہدف بڑھے گا تو عوام پر ٹیکس بھی بڑھ جائیں گے، مہنگائی زیادہ ہو جائے گی اور وہ مزید قرض کے نیچے دب جائے گا۔ 

اس نے جانا کہ آئی ایم ایف نے زیادہ پنشن لینے والے افراد پر ٹیکس لگانے کے لیے حکومت پاکستان پر زور ڈالا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ زیادہ پنشن لینے والے ریٹائر سرکاری ملازم مالی طور پر مضبوط ہوتے ہیں۔

انھیں اگر مراعات دی جارہی ہیں تو انھیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ 20-2019 میں ٹیکس اخراجات رپورٹ کی بات کریں تو حکومت پاکستان نے ٹیکس فری پنشن کی مد میں 21 ارب روپے کا نقصان برداشت کیا۔

مختلف سکیموں کے تحت سالانہ ٹیکس نقصان کی قیمت تقریباً 1.4 کھرب روہے بنتی ہے۔ اس حوالے سے جب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے آمدن ڈاکٹر وقار مسعود سے رائے مانگی گئی تو انھوں نے تجویز دی کہ جن لوگوں کی سالانہ پنشن 50 لاکھ یا ماہانہ پنشن چار لاکھ 16 ہزار سے زائد ہو ان پر 10 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے۔

جب حساب کتاب لگایا تو یہ حقیت سامنے آئی کہ اس اصول کے تحت بائیسویں گریڈ تک کسی بھی آفیسر کی پنشن پر ٹیکس نہیں لگ سکے گا۔

اکرم سوچنے لگا کہ ڈاکٹر وقار بھی سابق بیوروکریٹ رہ چکے ہیں۔ اس معاملے میں بھی وہ ملک کا سوچنے کی بجائے اپنا اور اپنے پیٹی بھائیوں کا سوچ رہے ہیں۔

شاید اس لیے کہتے ہیں کہ پاکستان کی بدحالی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں سرکاری ملازمین ملک سے پہلے اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہیں۔

خیر آئی ایم ایف کے ممکنہ شدید ردعمل کے باعث اس تجویز کو زیر غور نہیں لایا جا رہا اور تقریباً دو لاکھ پنشن لینے والوں پر ٹیکس لگانے کی تیاری ہے۔ 

اکرم کو پتہ چلا کہ پچھلے ماہ عدالتی حکم کے تحت ججوں کی پنشن، الاؤنس اور سپیشل الاوئنس پر ٹیکس چھوٹ دی جا چکی ہے۔

یہ فیصلہ جولائی 2020 میں سندھ ہائی کورٹ اور 2017 میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے تحت کیا گیا۔ موقف یہ اپنایا گیا کہ سپیشل الاؤنس ججوں کو بہترین کارکردگی کی بنا پر ملتے ہیں۔

یہ ان کی تنخواہ نہیں ہوتی لہذا ٹیکس نہیں لگ سکتا۔ اس نے سنا کہ عمومی طور پر ججوں کے الاؤئنس ان کی تنخواہ سے 300 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے جب ایف بی آر کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ کسی بھی پاکستانی شہری کو تنخواہ کے ساتھ جو الاؤنس ملتا ہے وہ قانون کی زبان میں تنخواہ ہی تصور ہوتی ہے اور پوری رقم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

اکرم سوچنے لگا کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں جج لاکھوں روپے الاؤنس اور پنشن لیتے ہیں اور خود ہی اپنے حق میں قانون پاس کر کے ٹیکس سے چھوٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر میں اپنی تھوڑی سی تنخواہ پر ٹیکس ادا کر رہا ہوں تو حکومت کو چاہیے کہ ججوں اور ریٹائرڈ  بیوروکریٹس کو بھی ٹیکس نیٹ میں لائے۔

اسے میڈیا سے پتہ چلا کہ حکومت کاروباری لوگوں کے لیے بھی مشکلات بڑھانے جا رہی ہے۔ وزیرخزانہ نے پاکستان بزنس کونسل سے وعدہ کیا تھا کہ نئے کاروبار کے لیے ٹیکس چھوٹ دی جائے گی ۔

65B,65D, 65E کے تحت نئے کاروبار کرنے والوں کو پانچ سال تک ٹیکس چھوٹ حاصل تھی جو دو ماہ قبل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ختم کر دی گئی ہے، اسے بحال کیا جائے گا۔

65D اور 65E  تیس جون 2021 کو ختم ہو رہے ہیں جبکہ 65B کو تو وقت سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ ان قوانین سے فائدہ اٹھانے کے لیے سینکڑوں نئی کمپنیاں بنائی گئیں تھیں جنھوں نے اربوں روپے کا سامان منگوا لیا اور بہت سا سامان بندرگاہوں پر موجود ہے۔

وقت سے پہلے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے اس سرمائے پر منافع ختم ہو گیا ہے۔ اس بجٹ سے کچھ امید تھی کہ ریلیف مل جائے گا لیکن عین وقت پر وزیرخزانہ سے انھیں بحال کرنے سے انکار کر دیا ہے اور آئی ایم ایف کو بھیجے گئے بجٹ میں ان کی بحالی کی بات نہیں کی گئی۔

اس کے علاوہ سیل پر 1.5 فیصد ٹیکس کو کم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کا نئے آنے والے بجٹ میں کوئی ذکر نہیں۔ اکرم سوچنے لگا کہ اس کا مطلب ہے کہ کاروباری لوگوں کو ریلیف نہیں ملے گا اور وہ بوجھ عوام پر ڈال دیں گے جس سے مہنگائی بڑھے گی اور میری مشکلات بھی بڑھ جائیں گی۔ 

اس نے سنا کہ حکومت نے ٹیکس آمدن حاصل کرنے کے لیے جو منصوبہ بنا کر پیش کیا ہے اس کے مطابق 200 ارب روپے کا فرق موجود ہے۔ اسے پورا کیسے کیا جائے گا اس حوالے سے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

اس بارے میں جب اس نے اپنے معیشت دان دوست سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اگر حکومت چاہے تو مزید ٹیکس لگائے بغیر 200 ارب روپے کے فرق کو با آسانی پورا کر سکتی ہے۔

ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کا قومی سطح پر 19 فیصد شیئر ہے جبکہ ٹیکس میں ان کا حصہ صرف 3.7 فیصد ہے۔ 2019 میں تاجروں کے ساتھ طے کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔

کچھ معاملات کی تشریح درست نہیں کی گئی اور کچھ ایشوز ایسے ہیں جن کی تعریف و تشریح میں مبینہ طور پر جان بوجھ کر ابہام پیدا کیے گئے جن سے تاجر فائدہ اٹھا کر ٹیکس بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ٹیکس چوری کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ دو سال قبل کیے گئے یہ معاہدے حکومت کی ناکامی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 35 سے 40 لاکھ تاجر ہیں، جن میں سے صرف تین لاکھ 92 ہزار ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ تقریباً 36 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی متاثر کن پالیسی موجود نہیں۔

رجسٹرڈ تاجروں میں سے صرف 725 آن لائن انوائس نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جبکہ سیلز ٹیکس ایکٹ 2019 کے تحت تمام تاجر آن لائن انوائس نظام کے تحت رجسٹرڈ ہونے کے پابند ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسے پتہ چلا کہ اکثر تاجر سامان بیچتے ہیں۔ ان پر سیلز ٹیکس اور اِنکم ٹیکس وصول کرتے ہیں لیکن سرکار کو جمع نہیں کرواتے اور رجسٹر نہ ہونے کی وجہ سے ایف بی آر کو بھی علم نہیں ہوتا کہ کتنا ٹیکس اکٹھا کیا گیا۔

عوام کی اکثریت کو رسید بھی جعلی بنا کر دی جاتی ہیں جسے کچی رسید کہا جاتا ہے۔ عوام چونکہ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے سے کتراتی ہے اس لیے رسیدیں سنبھالنے کا رواج نہیں۔ جو سٹور پکی رسیدیں بنا کر دیتے ہیں عوام اسے بھی اپنی ٹیکس ریڑن میں ظاہر نہیں کرتے اس طرح سٹور مالکان کو چیک کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

اس کمزور نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ایک طرف معمول کا منافع کماتے ہیں اور دوسری طرف سیلز ٹیکس، اِنکم ٹیکس اکٹھا کر کے گھر لے جاتے ہیں، یعنیٰ دو گنا سے بھی زیادہ منافع سٹور مالکان کی جیب میں چلا جاتا ہے۔

تمام ریٹیلرز کو آن لائن انوائس سسٹم سے جوڑ کر ٹیکس چوری کی واردات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر یہ نظام اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ کر دیا جائے تو آئی ایم ایف کے ٹیکس ٹارگٹ سے زیادہ پیسہ حاصل ہو سکتا ہے۔

اکرم سوچنے لگا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں بھی سیلز ٹیکس اور اِنکم ٹیکس ادا کرتا ہوں لیکن حکومت کی نااہلی کی وجہ سے سرکار کے خزانے تک نہیں پہنچتا۔ پھر جب ٹیکس ہدف پورا نہیں ہوتا تو سرکار مجھ پر ایک اور ٹیکس لگا کر خون چوستی ہے۔ حکومتی نااہلی کی سزا مجھے ملتی ہے۔ 

یہ سب جاننے کے بعد اکرم اس نتیجے پر پہنچا کہ حکومت کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ عوام دوست بجٹ پیش کرنے کے وعدے کرنے والی سرکار ممکنہ طور پر کوئی ایسا کام کرتی نہیں دکھائی دے رہی جس سے آنے والے بجٹ میں اکرم کے لیے کوئی اچھی خبر آ سکے۔

میں اسی بجٹ کو کامیاب مانوں گا جس سے میری آمدن بڑھے، اخراجات کم ہوں اور میرے بچے پیٹ بھر کر تین ٹائم کھانا کھا سکیں۔


نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ