بریانی ہو یا پلاؤ دونوں پکوان ہی بھارت اور پاکستان میں یکساں مقبول ہیں اور ان دونوں پکوانوں کا خاصہ باسمتی چاول بھی پوری دنیا میں صرف پاکستان اور بھارت میں پیدا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی یورپ کو باسمتی چاول برآمد کرنے والے ممالک ہیں لیکن بھارت کی جانب سے باسمتی چاول کو اپنے ٹرید مارک کے طور پر منسلک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بھارت کے اس عمل سے پاکستان میں نہ صرف چاول کی پیداوار بلکہ پاکستان کی برآمدی منڈی کو بڑا دھچکہ لگنے کا خدشہ ہے۔
لاہور کی البرکت رائس مل کے غلام مرتضیٰ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارا نوے فیصد کاروبار باسمتی چاول سے منسلک ہے۔ ہم اپنے کسانوں سے چاول خریدتے ہیں۔ ہماری فیکٹریاں بند ہو جایئں گی اور ہم دوسری قسم کے چاول کی بہت زیادہ پیداوار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا یہ ہم پر بم گرانے سے کم نہیں ہے۔‘
بھارت نے یورپی یونین میں درخواست دے رکھی ہے کہ باسمتی چاول کا ٹریڈمارک اسے دیا جائے، حالانکہ یہ چاول پاکستان اور بھارت کی مشترکہ ثقافت کا حصہ ہیں۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے تجارت عبدالرزاق داود نے یورپی کمیشن سے بھارت کے ’پروٹیکٹڈ جیوگرافیکل انڈیکیشن‘ (PGI) یعنی محفوظ جغرافیائی اشارہ حاصل کرنے کے اقدام کی مخالفت کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت دنیا بھر میں چاول برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت چاول کی برآمد سے سالانہ 6.8 ارب ڈالر حاصل کرتا ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار پاکستان کو چوتھے نمبر پر دکھاتے ہیں۔ پاکستان چاول کی برآمد سے سالانہ 2.2 ارب ڈالر حاصل کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان نے سخت یورپی معیار کے حوالے سے بھارت کو لاحق مشکلات کے باعث یورپی یونین کو اپنی چاول کی برآمدات میں اضافہ کیا ہے۔
یورپین کمشن کے مطابق پاکستان اس وقت یورپی یونین کو درکار چاولوں کا دو تہائی حصہ برآمد کر رہا ہے۔
ستمبر 2020 میں یورپی یونین کی جانب سے جاری کیے گئے جرنل میں یورپ میں باسمتی چاول کی طلب کو پورا کرنے والے ملکوں میں صرف بھارت کا نام ظاہر کیا گیا تھا۔
باسمتی چاول دنیا بھر میں پاکستان اور بھارت کی مشترکہ ثقافت ہے جو ہمیشہ سے دونوں ملکوں کے روایتی پکوانوں کی زینت اور خاصہ رہی ہے۔
یورپی یونین کے قوانین کے مطابق دونوں ممالک نے اگلے تین مہینے یعنی ستمبر 2021 تک باہمی مشاورت سے معاملات کو طے کرنا ہے۔ اس سے قبل بھارت کی جانب سے موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کی گزارش کی گئی تھی۔
اس معاملے پر پاکستان رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے نائب صدر ملک فیصل جہانگیر پُرامید نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم بہت جلد کسی نتیجے پر پہنچ جایئں گے۔‘
ملک فیصل جہانگیر کے مطابق: ’دنیا جانتی ہے کہ باسمتی چاول دونوں ملکوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت سا ڈیٹا موجود ہے۔‘
پاکستان اور بھارت کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ دونوں ممالک سفارتی سطح پر اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ثقافتی اور روایتی ورثے کو قائم رکھ سکتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان باسمتی چاول کی حیثیت برقرار رہے گی۔