کشمیر کی بھارت نواز سیاسی قیادت مودی سے ملاقات کو تیار

پانچ اگست 2019 کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ کشمیر کے بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم مودی سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بھارت نواز سیاسی قیادت نے وزیراعظم  نریندر مودی کی طرف سے 24 جون کو نئی دہلی میں بلائے گئے اجلاس میں شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔

کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کی خاطر بننے والے بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے رہنماؤں نے منگل کو سری نگر میں اتحاد کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

ملاقات میں شرکت کرنے والے رہنماؤں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم اپنا موقف وزیراعظم  نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے سامنے رکھیں گے۔‘

فاروق عبداللہ کا کہنا تھا: ’وزیراعظم نے 24 جون کو دوپہر تین بجے نئی دہلی میں میٹنگ رکھی ہے جس میں ہمیں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ ہم نے اس میٹنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم اپنے موقف کو وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے سامنے رکھیں گے۔‘

نئی دہلی میں منعقد ہونے والی میٹنگ کے ایجنڈے کے بارے میں پوچھے جانے پر فاروق عبداللہ نے کہا: ’ان کی طرف سے کوئی بھی ایجنڈا فکس نہیں ہے۔ وہاں ہم ہر معاملے پر بات کرسکتے ہیں۔‘

اس موقعے پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا: ’ان کا جو بھی ایجنڈا ہو، ہم اپنا ایجنڈا ان کے سامنے رکھیں گے۔ ہم کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں بند سیاسی اور دیگر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں گے اور جن کی رہائی ممکن نہ ہو، ان کی کشمیر منتقلی کا مطالبہ کریں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’جو ہم سے چھینا گیا ہے ہم اس پر بات کریں گے۔ ہم ان سے کہیں گے کہ آپ نے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات اٹھائے۔ خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کے بغیر جموں و کشمیر اور اس پورے خطے میں امن کی بحالی نا ممکن ہے۔‘

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رہنما اور پی اے جی ڈی کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے اس موقعے پر کہا: ’ہم بھارتی حکومت کے ایجنڈے پر دستخط کرنے نہیں جا رہے ہیں۔ اگر ان کی تجویز ہمارے حق میں ہوگی تو ہم حمایت کریں گے اور اگر حق میں نہیں ہوگی تو ہم برملا مخالفت کریں گے۔‘

تاریگامی کا مزید کہنا تھا کہ ’بھارتی حکومت نے میٹنگ کا کوئی ایجنڈا مقرر کیا ہے یا نہیں، ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں۔ ہم میٹنگ میں اپنے موقف کو دہرائیں گے۔ آپ کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم آسمان کے تارے نہیں مانگیں گے بلکہ وہی مانگیں گے جو ہمارا تھا۔ ہمیں وہاں اپنے عوام کا وکالت نامہ لے کر جانا ہے۔‘

پانچ اگست 2019 کے بعد پہلی میٹنگ

پانچ اگست 2019 کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ کشمیر کے بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم مودی سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔

بھارت میں برسر اقتدار ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو نہ صرف مسلم اکثریتی کشمیر کی حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کی بلکہ اس متنازع خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرکے وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تبدیل کر دیا تھا۔

بھارتی حکومت نے یہ سخت اقدامات اٹھانے سے ایک روز قبل یعنی چار اگست کو اکثر بھارت نواز کشمیری سیاسی رہنماؤں بشمول تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو سخت قوانین کے تحت نظر بند کر دیا تھا۔

بعد ازاں ان میں سے کسی کو سات ماہ بعد تو کسی کو 14 ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔ محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے دو رہنما ایسے ہیں جنہیں گذشتہ روز وزیراعظم مودی کی میٹنگ کے دعوے نامے تقسیم ہونے کے دوران ہی رہا کیا گیا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعظم مودی کے ساتھ میٹنگ کے لیے وفاقی داخلہ سکریٹری نے کشمیر اور ہندو اکثریتی خطہ جموں سے تعلق رکھنے والے 14 سیاسی رہنماؤں کو میٹنگ کے لیے مدعو کیا ہے۔ انہیں میٹنگ میں شرکت سے قبل کرونا (کورونا) ٹیسٹ کی منفی رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔

جن سیاسی رہنماؤں کو میٹنگ میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے، ان میں نیشنل کانفرنس سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ، پی ڈی پی سے محبوبہ مفتی، کانگریس سے غلام نبی آزاد، تارا چند اور غلام احمد میر، پیپلز کانفرنس سے سجاد غنی لون اور مظفر حسین بیگ، اپنی پارٹی سے الطاف بخاری، بی جے پی سے رویندر رینہ، نرمل سنگھ اور کویندر گپتا، سی پی آئی (ایم) سے محمد یوسف تاریگامی اور نیشنل پنتھرس پارٹی سے پروفیسر بھیم سنگھ شامل ہیں۔

میٹنگ کا ایجنڈا کیا ہے؟

کشمیر میں تعینات کانگریس پارٹی کے سربراہ غلام احمد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ کا کوئی ایجنڈا ہی طے نہیں۔

’میں نے داخلہ سیکریٹری سے سوال کیا تھا کہ میٹنگ کا ایجنڈا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کسی بھی معاملے یا موضوع پر بات کر سکتے ہیں۔ یہ ایک تکنیکی غلطی ہے کہ وزیر اعظم کی سطح پر میٹنگ ہے اور وہ بھی کسی ایجنڈے کے بغیر۔ ہمارا میٹنگ میں وزیر اعظم سے پہلا سوال یہی ہو گا کہ آپ کی میٹنگ کا ایجنڈا کیا ہے۔‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کانگریس پارٹی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کرے گی تو غلام احمد میر کا کہنا تھا: ’معاملے پر میرا ابھی کچھ کہنا جائز نہیں ہو گا۔ دراصل پارٹی ہائی کمان معاملے پر بعض رہنماﺅں کی آرا حاصل کر رہی ہے۔ ہمیں پارٹی قیادت جو ایجنڈا دے گی ہم وہ وزیر اعظم کے سامنے پیش کریں گے۔‘

تاہم دوسری جانب این ڈی ٹی وی نے اپنی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ مجوزہ میٹنگ کا ایجنڈا کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی پر بات چیت کرنا ہے، تاہم اس میں ’ریاستی درجے کی بحالی‘ کا معاملہ بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا: ’میٹنگ میں کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی پر بھی بات ہو سکتی ہے لیکن ایسے کسی بھی اقدام کو پارلیمان کی منظوری درکار ہے، جہاں تک بات خصوصی آئینی حیثیت کی ہے اس کی بحالی ناممکن ہے۔‘

بھارتی حکومت نے کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی اور بظاہر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہندو اکثریتی جموں میں حلقوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ’حد بندی کمیشن‘ تشکیل دے رکھا ہے۔

تاہم کشمیری سیاسی رہنما اس کمیشن کا حصہ بننے سے انکاری ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق جموں و کشمیر کے اسمبلی حلقوں کی حد بندی 2026 میں پورے ملک کے ساتھ ہونا مقرر تھا۔

نیشنل کانفرنس کے مطابق یہ حد بندی کمیشن ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019‘ کا حصہ ہے، جسے نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ کے اندر اور باہر چیلنج کیا ہے۔ اس حد بندی کمیشن میں حصہ لینا پانچ اگست 2019 کے واقعات کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا اور نیشنل کانفرنس ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

کانگریس کے سینیئر رہنما غلام نبی آزاد، جو میٹنگ میں شرکت کرنے جا رہے ہیں، نے بھارتی اخبار ’دی انڈین ایکسرپیس‘ کو بتایا ہے کہ کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی ان کی جماعت کا سب سے بڑا مطالبہ ہو گا۔ تاہم جب ان سے شق 370 کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا: ’میٹنگ میں اس کی بحالی کا مطالبہ کرنا ہے یا نہیں، اس پر میں پارٹی کے رہنماؤں سے بات کر رہا ہوں۔‘

اگرچہ بھارتی حکومت نے اس مجوزہ میٹنگ کا ایجنڈا ظاہر نہیں کیا ہے، تاہم بتایا جا رہا ہے کہ اس میٹنگ کا انعقاد بین الاقوامی برادری بالخصوص امریکہ کے دباﺅ کے پیش نظر عمل میں لایا جا رہا ہے۔

بھارتی اخبار ’دا ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی برادری بالخصوص امریکہ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر میں جمہوری اور انتخابی عمل بحال کرے۔

بی جے پی اور ’اپنی پارٹی‘

جموں و کشمیر میں بی جے پی کے صدر رویندر رینہ کا کہنا ہے کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ سبھی مدعوئین نے وزیراعظم مودی کی میٹنگ میں شرکت کی ہامی بھری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے منگل کو جموں میں پارٹی دفتر میں ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں سے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم مودی نے جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کی میٹنگ کھلے ذہن اور دل سے بلائی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ یہاں کے لوگ دل سے بھارتی ہیں۔ یہاں پاکستان سپانسرڈ دہشت گردی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں، لہٰذا ہم سب کو بھارت کے جھنڈے کو بلند کرنے کی بات رکھنی چاہیے۔‘

بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ کہلائی جانے والی جماعت ’جموں و کشمیر اپنی پارٹی‘ کے ترجمان رفیع میر نے کہا کہ ’ہم 24 جون کو ہونے والی میٹنگ میں ہر معاملے پر بات کریں گے۔ ہمارا علاقہ ایک ایسا خطہ بن گیا ہے جس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ ایک بڑی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہماری حکومتی ایوانوں تک کوئی رسائی نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ پچھلی سات دہائیوں سے محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس میٹنگ کے ذریعے کشمیر میں جمہوری عمل کی بحالی ممکن ہو پائے گی۔‘

بین الاقوامی دباؤ؟

سیاسی تجزیہ کار افتخار مسگر کہتے ہیں کہ نریندر مودی اس میٹنگ کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو بتانا چاہتے ہیں کہ میرے کشمیری قیادت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مودی حکومت پر بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ دباﺅ ہے۔ اسی دباﺅ کے پیش نظر یہ میٹنگ بلائی گئی ہے۔ کشمیری رہنماﺅں کے پاس اس میٹنگ میں شرکت کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس میں کشمیریوں کے حق میں کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔‘

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے ریسرچ سکالر عرفان علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیر اعظم مودی کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ ایک دھوکہ ہے اور اس سے عام کشمیریوں کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

’یہ لوگ پرانے اور دیرنہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے کشمیریوں کے لیے نت نئے مسئلے پیدا کر رہے ہیں۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگوں کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹا کر ریاستی درجے کی بحالی جیسے معاملات یا مطالبات کی طرف مبذول کیا جائے۔‘

پاکستان کی تنبیہ

وزیراعظم مودی کی جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ سے قبل پاکستان نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کے بعد مزید ’غیر قانونی اقدام‘ سے اجتناب کرے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’بھارت کو کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کے بعد مزید ’غیر قانونی اقدام‘ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’پاکستان پانچ اگست 2019 کو بھارت کی طرف سے لیے جانے والے فیصلوں کی شدید مخالفت کرتا ہے اور ہم نے کئی بین الاقوامی سطح کے پلیٹ فارمز بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ جنوبی ایشیا میں قیام امن کا انحصار مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر ہے۔‘

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی اور اس کو منقسم کرنے کے بارے میں کی جانی والی کارروائیوں کو برداشت نہیں کرے گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا