کیا پاکستان انگلینڈ کی ناتجربہ کار ٹیم کو زیر کر سکے گا؟

جن نو کھلاڑیوں کو انگلینڈ کی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے ان میں سے چھ تو ایسے ہیں جو کبھی کسی بھی فارمیٹ میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلے۔

بابر اعظم جو قسمت کے دھنی ہیں ان کی کپتانی میں پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ 46 سال کے بعد انگلینڈ کی سرزمین پر کوئی ون ڈے سیریز جیت سکے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

جمعرات سے شروع ہونے والی انگلینڈ پاکستان ون ڈے سیریز کے آغاز سے قبل ہی پاکستان کو خوش قسمت لمحہ میسر آگیا ہے جب انگلینڈ کی پوری ٹیم کو کورونا وائرس کے باعث قرنطینہ میں بھیج دیا گیا۔

سیریز میں پاکستان سے مقابلے کے لیے بین سٹوکس کی قیادت میں ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل سکواڈ ترتیب دیا گیا جن میں سے نو کھلاڑی ایسے ہیں جو کبھی کسی ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں انگلینڈ کی نمائندگی نہیں کر سکے۔

نئے کھلاڑی کون ہیں؟

 جن نو کھلاڑیوں کو انگلینڈ کی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے ان میں سے چھ تو ایسے ہیں جو کبھی کسی بھی فارمیٹ میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلے۔

 فل سالٹ، ول جیکس، ٹام ہیلم ، برائیڈن کارس، ڈیوڈ پین اور جان سمپسن وہ کھلاڑی ہیں جن کا کیرئیر شروع ہونا ہے۔  جب کہ زیک کرالی، لیوس گریگری اور ڈین لارنس نے ٹیسٹ یا ٹی ٹوینٹی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی ہے۔ زیک کرالی نے گزشتہ سال پاکستان کے خلاف ساؤتھ ہیمپٹن ٹیسٹ میں 267 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔

تبدیل شدہ ٹیم میں کپتان بین سٹوکس سب سے زیادہ تجربہ کار کرکٹر ہیں۔ وہ 71 ٹیسٹ 98 ون ڈے اور 34 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں انگلینڈ کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ یہ سیریز نہیں کھیلنا چاہتے تھے تاہم ضرورت پڑنے پر وہ کھیلنے کے لیے تیارہوگئے ہیں۔

بین سٹوکس ورلڈ کپ فائنل کے ہیرو تھے اور وہ اس سیریز میں بھی سخت جان حریف ثابت ہوسکتے ہیں۔

ٹیم میں ایک اہم نام ڈیوڈ ملان کا ہے جو ٹی ٹوینٹی کے مشہور کرکٹر ہیں اور ایک انٹرنیشنل سنچری بھی بنا چکے ہیں۔ وہ ان چارکرکٹرز میں شامل ہیں جو پی ایس ایل کا حصہ رہ چکے ہیں۔ باقی کھلاڑی فل سالٹ ڈیوڈ گریگوری اور بین ڈکیٹ ہیں۔

مجموعی طور پر ایک کمزور اور ناتجربہ کار ٹیم ہے۔ جس کے لیے پاکستان سے بھرپور مقابلہ بہت مشکل ہوگا۔ کھلاڑیوں کی صلاحیت سے زیادہ اہم ٹیم ورک ہے جس کا فقدان ہوگا۔ کیونکہ ہنگامی طور پر شامل ہونے والے کھلاڑیوں کو ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگے گا جس کا پاکستان بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

پاکستان ٹیم کہاں کھڑی ہے؟

پاکستان ٹیم گزشتہ دو سال کے عرصہ میں پہلی دفعہ کسی ہائی رینکنگ ٹیم سے ایک روزہ کرکٹ میں مقابلہ کرے گی۔ پاکستان ٹیم نے اس عرصہ میں صرف کمزور ٹیموں کے خلاف سیریز کھیلیں اور اپنا ریکارڈ بہتر بنایا۔

ٹیم کے بلے بازوں نے رنز کے ڈھیر تو لگائے لیکن ان کی اننگز ایسے بولرز کے خلاف تھیں جو ناتجربہ کار تھے یا پھر ہوم گراؤنڈز تھے۔ جہاں مخصوص کنڈیشنز کے باعث بلے بازوں کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور فتوحات آسانی سے گرین شرٹس کے ہاتھ آتی رہی۔

انگلینڈ کا دورہ پاکستان کے لیے ہمیشہ مشکل ترین رہا ہے اور جب سے محدود اوورز کی ایک روزہ کرکٹ کا آغاز ہوا ہے پاکستان انگلینڈ کےخلاف 1974 کی اولین سیریز کے علاوہ کوئی سیریز نہیں جیت سکا۔

پاکستان نے اپنی آخری سیریز ورلڈ کپ 2019 سے قبل کھیلی تھی۔ جس میں اسے چار صفر سے شکست ہوئی تھی۔

سیریز میں پاکستان کی بیٹنگ تو بہتر رہی تھی لیکن بولنگ نے مایوس کیا تھا۔ جس سے رنز کے انبار لگانے کے باوجود ٹیم بری طرح ہار گئی تھی ۔

پاکستان کی موجودہ ٹیم چند تبدیلیوں کے ساتھ وہی ہے۔ البتہ ٹیم کی قیادت بابر اعظم کے ہاتھوں میں ہے جو پہلی دفعہ کسی مضبوط ٹیم کے خلاف برسر میدان ہوں گے۔

ٹیم کی بیٹنگ اور چانسز

پاکستان ٹیم کی اوپننگ اگر دیکھی جائے تو فخر زمان اور امامُ الحق مستند نظر آتے ہیں۔ فخر زمان کا بیٹ ایک بار پھر رنز اگلنے لگا ہے۔

جنوبی افریقہ کے خلاف دو سنچریاں ان کی جگہ کو مضبوط کر گئی ہیں۔ جب کہ امام الحق کا انگلینڈ میں ریکارڈ اچھا ہے۔ وہ گذشتپ دورے کے دوران لیڈز میں سنچری کرچکے ہیں۔

کپتان بابر اعظم ون ڈاؤن کھیلیں گے۔ اگرچہ ان کی ٹیسٹ میں کارکردگی روز بروز خراب ہورہی ہے لیکن ون ڈے میں وہ بہت مضبوط ہیں۔

حارث سہیل جنہیں بنا کسی کارکردگی کے دورے کے لیے منتخب کیا گیا ہے تادم تحریر ان فٹ ہیں اور شاید دورے سے باہر ہوجائیں

 اس صورت میں سعود شکیل یا صہیب مقصود میں سے کسی ایک کو چانس مل سکتا ہے۔ صہیب مقصود نے پی ایس ایل میں شاندار بیٹنگ کی ہے۔ اس لیے لائم لائٹ میں ہیں اور زیادہ ان کے کھیلنے کے امکانات ہیں۔

محمد رضوان اور فہیم اشرف مڈل آرڈر سنبھالیں گے۔ جب کہ شاداب خان اگر مکمل فٹ ہوئے تو وہ ساتویں نمبر پر بیٹنگ کریں گے۔

حسن علی، شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف فاسٹ بولنگ کا محاذ سنبھالیں گے۔

اگر بیٹنگ کو مزید مضبوط کرنا مقصود ہوا تو لاہور کے آغا سلمان کو کھلائے جانے کا امکان ہے۔ وہ اچھے آف سپنر بھی ہیں اس لیےبولنگ کو بھی تقویت ملے گی۔ ورنہ محمد نواز لازمی طور پر ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

پاکستان ٹیم کو سب سے زیادہ مشکلات مڈل آرڈر میں ہیں۔ جہاں ٹیم کمزور ٹیموں کے خلاف بھی ایکشن دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئی اور جیت بمشکل ہی ہاتھ آ سکی۔

بولنگ

بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ باقی بولرز اتنے آزمودہ کار نہیں ہیں۔

حسن علی نے پی ایس ایل میں اچھی بولنگ کی ہے۔ جس سے ان کی فارم کا اندازہ ہوتا ہے لیکن حارث رؤف، شاداب خان اور محمد نواز دوسرے درجے کےبولرز ثابت ہوئے ہیں۔

بابر اعظم کی کے لیے مشکل صورتحال یہ ہے کہ سپنرز آف کلر ہیں۔

پاکستان کے لیے بہترین موقع

انگلینڈ کی ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کو ہرانے کا اس سے اچھا موقع شاید پھر نہ ملے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بابر اعظم جو قسمت کے دھنی ہیں ان کی کپتانی میں پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ 46 سال کے بعد انگلینڈ کی سرزمین پر کوئی ون ڈے سیریز جیت سکے۔

خوش قسمتی کے اس موڑ پر ٹیم کو اپنی سو فیصد کارکردگی دکھانا پڑے گی ورنہ کمزور ٹیم کے سامنے سبکی ہوسکتی ہے۔

پاکستان کی ٹیم اپنی قوت کے لحاظ سے اس وقت دنیائے کرکٹ کی صف اول کی ٹیموں میں شمار ہوتی ہے اور ہر ملک اسے خطرناک حریف تصور کرتا ہے۔

گو کہ بیٹنگ میں محمد رضوان اور بابر اعظم پر بہت زیادہ انحصار کرنے سے دوسرے کھلاڑی سہل پسند ہو گئے ہیں اور اب ایک مشکل دورہ پر ان کی کارکردگی کا گراف اگر اوپر نہ جا سکا تو شاید سیریز کا نتیجہ توقعات کے برعکس نکل جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ