چترال: ’پولو سے محبت میں حکمران مخالف کھلاڑیوں کو مروا دیتے تھے‘

چترال میں پولو کا باقاعدہ آغاز 1936 میں ایک برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کے دور میں ہوا جب وہاں گراؤنڈ بنایا گیا۔

اس کھیل کا آغاز ماضی کے دھندلکوں میں کھویا ہوا ہے، اس کا ذکر زمانہ قدیم کے مشہور مرثیوں میں ملتا ہے،ایسا ہی ایک مرثیہ چترالی زبان میں نانو بیگال کے نام سے مشہور ہے (تصاویر: شہزادہ غازی الدین)

ہر سال شندور پولو  فیسٹیول کا انعقاد جولائی کے مہینے میں کیا جاتا ہے اور اس میلے میں چترال اور گلگت سے کئی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔

کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کی وجہ سے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی یہ فیسٹول ملتوی ہو گیا جس سے نہ صرف چترال سیاحت کے لحاظ سے متاثر ہوا بلکہ شائقین بھی مایوس ہو گئے۔

ساتھ ہی کھلاڑیوں کے ارمانوں پر بھی پانی پھر گیا کیوں کہ وہ اس فیسٹول کے لیے سارا سال تیاری کرتے ہیں۔ چترال میں زمین کی قلت ہے مگر پولو سے محبت اور شوق کی وجہ سے ہر بڑے گاؤں میں پولو گراؤنڈ ملیں گے۔

پولو کو عام طور پر شاہی کھیل سمجھا جاتا ہے، برصغیر پاک و ہند میں بادشاہ یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔

پولو بلتی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب گیند ہے۔ گیند کو ٹھوکر مارنے کے لیے چھڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ چترال میں جو پولو کھیلا جاتا ہے اسے فری سٹائل پولو کہا جاتا ہے۔ 

اظہار علی چترال سے تعلق رکھنے والے پولو کے اچھے کھلاڑی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:  ’میں 2006 سے چترال کی اے ٹیم میں کھیل رہا ہوں، شندور میں گلگت کے خلاف چار مرتبہ مین آف دا میچ رہنے کے علاوہ 10 گولوں کا ریکارڈ بھی میرے نام ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’اس کھیل میں کوئی امپائر نہیں ہوتا، کھلاڑی کو مارو، گھوڑا گراو، کچھ بھی کرو، کوئی روک ٹوک نہیں، صرف گول کی نگرانی کی جاتی ہے۔ نہیں باقی اس کھیل میں کوئی قاعدے قانون نہیں ہوتے۔ اس کھیل میں چھ، چھ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اور میچ کا دورانیہ 50 منٹ کا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے خطرناک مرحلہ اس وقت آتا ہے جب دو گھوڑے آپس میں ٹکراتے ہیں۔ اس میں خود یا گھوڑے سمیٹ گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اگر گھوڑا اوپر گر جائے تو مرنے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔‘

شہزادہ غازی الدین دروش پولو گراؤنڈ میں اکثر پولو ٹورنامنٹ منعقد کراتے ہیں اور خود بھی پولو کے کھلاڑی ہیں، وہ کہتے ہیں: ’فری سٹائل میں گول کی صورت میں جگہ تبدیل کر دیتے ہیں، اس کو گول بدیلی کہتے ہیں۔ جب گول ہوتا ہے تو گول کرنے والی ٹیم کی طرف سے ایک شخص گیند ہاتھ میں لیے اپنے گھوڑے کے اوپر بیٹھ کر درمیان میں آکر گیند کو ہوا میں اُچھال کر ٹھوکر مارتا ہے، اس کو ’تمپوق‘ کہتے ہیں۔‘

اظہار علی سے جب پوچھا گیا کہ فری سٹائل پولو کے لیے کیا گھوڑے کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے؟ تو انہوں نے کہا: ’میں اپنے حوالے سے بات کروں تو میں ہر گھوڑے کے اوپر بیٹھ کر کھیل سکتا ہوں لیکن اگر گھوڑا تربیت یافتہ ہو تو اس کی بات ہی کچھ اور ہے، گھوڑے کی تربیت بہت مشکل کام ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پریکٹس کے حوالے سے اظہار علی کا کہنا ہے: ’ہم ہر دوسرے دن پریکٹس کرتے ہیں تاکہ میچ میں مشکلات نہ ہوں۔‘

عام طور پر پولو میں کھلاڑیوں کی تعداد چار ہوتی ہے، یہ زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ 1911 میں ماہنامہ ’دی پولو‘ کے مطابق الہ آباد میں کھیلے جانے والے انڈین پولو ٹورنامنٹ میں کُل چھ ٹیموں نے حصہ لیا تھا اور ہر ٹیم میں چار کھلاڑی تھے۔ اس کے برعکس فری سٹائل پولو میں کھلاڑیوں کی تعداد چھ ہوتی ہے۔ 

چترال میں پولو کا باقاعدہ آغاز ایک برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ میجر ایولین ہی کوب کی سرپرستی میں اس وقت ہوا جب مس جنالی (چاند گراؤنڈ) کی تعمیر کی گئی، اس میدان میں 1936 میں پولو کھیلنا شروع کیا گیا اور جنرل ضیا الحق کے دور میں اسے باقاعدہ کلینڈر ایونٹ کے طور پر کھیلا جانے لگا۔

پولو کھیل سے وابستہ موسیقی کے حوالے سے شہزادہ غازی الدین کا کہنا ہے کہ: ’پولو کا اپنا ایک مخصوص میوزک ہوتا ہے، اس کو غاڑ وار کہتے ہیں۔ اس میوزک کے ساتھ ہی پولو کا آغاز ہوتا ہے۔ چترالی زبان میں ’غاڑ‘ کا مطلب پولو اور ’وار‘ کا مطلب زبان کے ہیں لیکن یہاں وار ساز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس طرح پولو کا اپنا ساز ہے اسی طرح ہر کھلاڑی کا اپنا ساز ہوتا ہے۔‘

اس کھیل کا آغاز ماضی کے دھندلکوں میں کھویا ہوا ہے۔ اس کا ذکر زمانہ قدیم کے مشہور مرثیوں میں ملتا ہے۔ ایسا ہی ایک مرثیہ چترالی زبان میں نانو بیگال کے نام سے مشہور ہے۔

اس کی کہانی کچھ یوں ہے: ’زمانہ قدیم میں مہتر اور بیگال کی ٹیم ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتی تھی۔ بیگال کا تعلق شغور چترال سے ہے۔ بیگال پولو کا ایک بہترین کھلاڑی تھا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی ٹیم کا جیتنا محال تھا۔ اسی طرح مہتر کو کسی نے مشورہ دیا کہ بیگال کو راستے سے ہٹا دیا جائے اور مہتر کے کہنے پر بیگال کو مار دیا گیا۔‘

مرثیے کے مطابق جب ماں نے بیٹے کو مردہ حالت میں پایا تو اس کا چہرہ ڈھانپ کر اور اس کے کپڑے پہن کر خود میدان میں اتر گئیں اور خوب پولو کھیلا، اس طرح بیگال کی ٹیم جیت گئی۔ 

 اس مرثیے کے بارے میں چترال سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی آف چترال سے منسلک پروفیسر ظہور الحق دانش کہتے ہیں: ’مرثیے کا زمانہ تقریباً 1620 بنتا ہے۔ نانو بیگال کا اصل نام جلال الدین بیگال تھا۔ وہ اتالیق (اعلیٰ ریاستی عہدہ رکھنے والے) بھی تھے۔ ان کو اس وقت کے مقامی حکمران نے شوغور لوٹکوہ میں قتل کرایا تھا۔ ان کے خاندان سے نایاب اسقال بھی بعد میں اتالیق رہے ہیں اور چترال کی ریاستی تاریخ میں معتبر نام و مقام کے حامل رہے ہیں۔

ظہور الحق کہتے ہیں کہ یہ حقیقت پر مبنی کہانی ہے لیکن اس مرثیے کے لکھاری گمنام ہے۔ 

چترال پولو ایسوسی ایشن کے صدر شہزادہ سکندر الملک کہتے ہیں: ’یہ کھیل زمانہ قدیم سے کھیلا جارہا ہے۔ پہلے پہل منگولیا اور ایران میں کھیلا جاتا تھا۔ ایران میں چوگان کے نام سے کھیلا جاتا تھا۔ ہم چترالی استور غاڑ یا غاڑ کہتے ہیں۔ ایران اور منگولیا کے بعد شمالی علاقہ جات چترال میں کھیلا جاتا ہے۔ ہم جو پولو کھیلتے ہیں یہ کھیل کی ایک منفرد شکل ہے۔‘

اس سال چترال شندور فیسٹیول کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’حکومت نے شندور میلہ تو ملتوی کر دیا تھا لیکن ہم چترال کی حد تک فیسٹیول کا انعقاد چاہتے تھے تاہم انتظامیہ نے شندور پر قبضہ جمانے کے لیے ہمیں جشن کے انعقاد سے منع کر دیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل