شندور میلہ منسوخ کیے جانے پر پولو کھلاڑیوں کا احتجاج

شندور میں پولو ٹورنامنٹس کا اغاز 1980 کی دہائی میں ہوا جس کے بعد حکومت نے اس کھیل اور میلے پر توجہ دینا شروع کیا۔

ہر سال جولائی کے دوسرے ہفتے میں شندور میلے کا انعقادکیا جاتا ہے، جس کی سب سے بڑی کشش ضلع چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان کھیلاجانے والا پولو مقابلہ ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کی حکومت نے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی شندور فیسٹیول کی منسوخی کا اعلان کر دیا ہے، جس پر گلگت اور چترال کے پولو ٹیموں کے کھلاڑیوں اور علاقائی عمائدین نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

محکمہ ثقافت وسیاحت کی جانب سے رواں ہفتے جاری کیے جانے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’این سی او سی کے ہدایات کی روشنی میں کرونا (کورونا) وبا میں کمی لانے اور متوقع خطرات سے بچاؤ کا واحد حل 2021 شندور میلے کو عوامی مفاد کی خاطر منسوخ کرنا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے کہا: ’صوبائی حکومت اس بات پر قائل ہے کہ کرونا وبا کے پیش نظر اور عوام کے وسیع تر مفاد میں اس سال بھی شندور میلہ منعقد نہیں کیا جا سکے گا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’شندور میلے میں تقریباً آٹھ ہزار لوگوں کا مجمع لگتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہر شخص کا ٹیسٹ کرنا، احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کروانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سے مشاورت کے بعد اس فیسٹیول کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

کامران بنگش کے مطابق: ’ہم امید رکھتے ہیں کہ آنے والے سال میں ہم شندور میلے کو روایتی جوش وجذبے سے منا سکیں گے۔ پاکستان میں کرونا کے کیسز میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ تاہم اس طرح کے میلوں کے انعقاد سے ہم کوئی ایسی غلطی نہیں کرنا چاہتے جس سے حالات سنگین صورت حال اختیار کر لیں۔‘

تاہم چترال پولو ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پولو کے مشہور کھلاڑی شہزادہ سکندرالملک نے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کرونا وبا کی وجہ سے نہیں بلکہ فنڈز کی وجہ سے میلے کو منسوخ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کرونا ایک بہانہ ہے، مسئلہ پیسوں کا ہے، کیونکہ سرکاری رپورٹس کے مطابق چترال بالا میں کرونا کے مثبت کیسز کی شرح ایک فیصد بھی نہیں۔ اگر کرونا ہی وجہ ہوتا تو اس کا حل تھا۔ لواری ٹنل کے پاس سیاحوں سے کرونا سرٹیفیکیٹ وصول کرنے کی شرط رکھی جاتی۔‘

سکندرالملک نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سالوں سے پولو ٹورنامنٹس برباد ہوکر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس کھیل کو نجی شعبے کے حوالے کر دے تو یہ بہت ترقی کر سکتا ہے۔

سکندر الملک نے کہا:  ’حکومت اس میلے پر تقریباً تین سے چار کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ ہم درخواست کرتے آرہے ہیں کہ حکومت پیسہ خرچ نہ کرے۔ ایسوسی ایشن نہ صرف تمام انتظامات کرے گی بلکہ سپانسرز بھی ڈھونڈے گی۔‘

شہزادہ سکندرالملک نے کہا: ’چونکہ شندور میلہ منسوخ کرنے سے کھلاڑیوں اور چترال کے کاروباری طبقے کو مایوسی ہوئی ہے لہذا ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت وہ خود کھیل اور تماشائیوں کا بندوبست کریں گے اور 50 کی جگہ اس بار جولائی میں شندور کے میدان میں تقریباً ڈیڑھ سو کھلاڑی پولو میچ کھلیں گے۔‘

چترال بالا کے 55 سالہ محمد ایوب جو کہ پچھلے 35 سالوں سے شندور کے میدان پر کھیلتے آرہے ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شندور کے میدان میں دنیا کے سامنے پولو میں اپنی کارکردگی دکھانا ایک کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’پولو کا کھلاڑی سال بھر اپنے گھوڑے کو تیار کرواتا ہے۔ اسے دالیں اور قیمتی خوراکیں دیتا ہے تاکہ گھوڑا صحت مند اور طاقت ور رہے۔ خود مشقیں کرتا ہے۔ حکومت نے میلہ منسوخ کر دیا ہے اس لیے اب کی بار ہم اپنی جیب سے پیسے لگائیں گے۔ خود بھی جائیں گے اپنی خواتین اور بچوں کو بھی لے کر جائیں گے۔‘

محمد ایوب نے کہا کہ ایک کھلاڑی پر تقریباً 50 ہزار تک کا خرچہ آئے گا جس میں خوراک اور خیمے کے علاوہ گھوڑے کے اخراجات بھی شامل ہوں گے۔

محمد ایوب کہتے ہیں:  ’پولو کھیلنا ہمارا شوق ہے۔ ورنہ حکومت نے تو صرف 2019 میں 75 ہزار روپے کھلاڑیوں کو دیے تھے۔ اس بار بھی ہمیں چاہے ایک لاکھ بھی خرچ کرنا پڑے تو ہم خرچ کریں گے۔ البتہ ایسوسی ایشن کو سپانسر نہیں مل سکیں گے کیونکہ اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اور چترال پولو ایسوسی ایشن اس اچانک سرکاری اعلان کی توقع نہیں کر رہی تھی۔‘

پولو کے دیگر کھلاڑیوں نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی شندور میلے میں دلچپسی ختم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ماضی کے برعکس میلے کی وہ آب وتاب باقی نہیں رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت کے سیکرٹری عابد مجید سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کرونا وبا کے باعث صوبائی حکومت کو فروری کے مہینے میں ’ڈیرہ جات‘ میلہ بھی منسوخ کرنا پڑا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شندور میلے کو دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ ایسی صورت میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے جیسے ضروری اقدام پرعملدرآمد کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ میلے کے لیے تشریف لانے والے تمام افراد کی ویکسینیشن کی بات کو بھی اگر سامنے رکھا جائے توگلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی انتظامیہ کے مابین اتنے کم وقت میں کوآرڈینیشن کرنا ایک مشکل ترین کام ہوگا۔‘

پولو اور شندور میلے کا پس منظر

ہر سال جولائی کے دوسرے ہفتے میں شندور میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس کی سب سے بڑی کشش ضلع چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا پولو مقابلہ ہے۔

سطح سمندر سے 37 سو میٹر کی بلندی پر واقع شندور میں بنائے گئے اس پولو گراؤنڈ کو دنیا کا سب سے بلند ترین پولو گراونڈ مانا جاتا ہے۔

 اس میں بغیر کسی اصول وقواعد ’فری سٹائل‘ پولو کھیلی جاتی ہے۔ شندور میلے میں پولو مقابلے کے علاوہ سیاح علاقائی موسیقی، رقص، اور انواع واقسام کی خوراکوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شندور میلے میں شرکت کرنے والے سیاحوں کے لیے میدان کے پاس ہی خیموں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

جس زمانے میں چترال ایک ریاست کی حیثیت رکھتا تھا ان وقتوں میں بھی پولو کے مقابلے ہوا کرتے تھے تاہم یہ مقابلے سالوں میں ایک آدھ بار ہی منعقد ہوا کرتے تھے۔

شہزادہ سکندرالملک کے مطابق، وہ سب سے اچھا دور تھا جب پولو بغیر پیسوں کے صرف شوق کی خاطر کھیلی جاتی تھی۔

شندور میں مستقل ٹورنامنٹس کا اغاز 1980 کی دہائی سے ہوا، جس کے بعد حکومت نے اس کھیل اور میلے پر توجہ دینا شروع کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل