دماغ خور جراثیم نیگلیریا کے کیسز صرف کراچی میں ہی کیوں؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہر سال مون سون بارشوں سے پہلے نیگلیریا فاؤلری سے چند افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں رپورٹ ہوتی ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لوگ طویل قطاروں میں عوامی نکلوں سے پانی بھر رہے ہیں (اے ایف پی فائل)

کراچی میں ایک بار پھر نیگلیریا سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے اور رواں برس اب تک پانچ افراد اس جرثومے کی وجہ سے انتقال کر چکے ہیں۔

کراچی میں گذشتہ دنوں دماغ خور جراثیم نیگلیریا فاؤلری سے متاثر آٹھ سالہ زوہیب فہد انتقال کر گئے۔ محکمہ صحت سندھ کے ترجمان عاطف وگھیو کے مطابق نیگلیریا فاؤلری سے انتقال کرنے والے زہیب کا تعلق کراچی کے علاقے شادمان ٹاؤن سے تھا اور ان کو تین روز قبل سر درد کے باعث نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، تشخیص کے بعد وہ نیگلیریا فاؤلری کا کیس ثابت ہوا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عاطف وگھیو نے کہا کہ رواں برس سال نیگلیریا فاؤلری سے پانچ افراد انتقال کر چکے ہیں، جنوری 2021 میں کراچی کے ایک ہسپتال میں نیگلیریا فاؤلری کا پہلے مریض کا انتقال ہوا تھا جن کا تعلق بلوچستان کے شہر لسبیلہ سے تھا۔ بعد میں نیگلیریا فاؤلری سے ایک ڈاکٹر سمیت مرنے والے چاروں کا تعلق کراچی شہر سے تھا۔‘

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہر سال مون سون بارشوں سے پہلے نیگلیریا فاؤلری سے چند افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں رپورٹ ہوتی ہیں۔

نیگلیریا فاؤلری ہے کیا؟ 

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نیگلیریا فاؤلری کوئی بیکٹیریا یا وائرس نہیں ہے بلکہ یک خلوی جاندار امیبا کی ایک قسم ہے، جو دوسروں سے خوراک حاصل کرتا ہے۔ یہ جاندار صاف پانی میں پایا جاتا ہے اور عام طور پر تالاب، سوئمنگ پول یا گھر میں پانی کی ٹنکیوں میں ملتا ہے۔  

ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق: 'نیگلیریا فاؤلری ایک دماغ خور جرثومہ ہے۔ جب کوئی فرد نیگلیریا فاؤلری سے آلودہ پانی میں نہاتا ہے یا ناک صاف کرتا ہے یا کسی اور طریقے سے پانی اگر ناک میں چلا جائے تو یہ جرثومہ ناک کے ذریعے دماغ میں جاکر دماغ کا اگلا حصہ کھانا شروع کر دیتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا :’نیگلیریا فاؤلری سے متاثر ہونے والے فرد کو پہلے ہلکا سر درد ہوتا ہے جس کے بعد غنودگی طاری ہونے لگتی ہے، طبیعت زیادہ خراب ہونے پر جب ہسپتال لایا جاتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور تب تک یہ جرثومہ فرد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔ اس جرثومے سے متاثر 95 فیصد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔‘ 

 ڈاکٹر قیصر کہتے ہیں: ’پاکستان میں عام طور پر لوگ سر درد کو ہمیشہ ہلکا لیتے ہیں، جب سر درد ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں شاید تھکن ہے اور خود سے کوئی سردرد کی گولی لے لیتے ہیں۔ نیگلیریا فاؤلری سے متاثر ہونے کے بعد اس مرض کا پتہ نہیں چلتا اور جب پتہ چلتا ہے تو دیر ہوچکی ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ: ’اس جرثومے سے متاثر ہونے کے بعد علاج بہت مشکل ہے، اس لیے صرف احتیاط سے ہی اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ نیگلیریا فاؤلری پانی میں کلورین یا کپڑے دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بلیچ سے ختم ہو جاتا ہے، اس لیے لوگ اپنے گھروں کی ٹنکیوں میں کلورین کا استعمال کریں، مگر کلورین کی زیادہ طلب سے قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اس لیے لوگ اپنے گھروں میں 500 سے 1500 گیلن والی ٹنکی میں بلیچ کے صرف دو چمچ کا پیسٹ بنا کر ڈال دیں تو اس جرثومے کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور اتنے بلیچ سے انسانی صحت پر کوئی بھی منفی اثر بھی نہیں ہوتا۔‘

محکمہ صحت سندھ کی نیگلیریا پر بنی ٹیم کا کیا کام ہے؟

محکمہ صحت سندھ کی نیگلیریا فاؤلری کی نگرانی کے لیے محکمہ صحت، پبلک ہیلتھ سمیت مختلف شعبوں کے چھ افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ محکمہ صحت سندھ کے فوکل پرسن برائے نیگلیریا فاؤلری ڈاکٹر شکیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب بھی کراچی میں کوئی نیگلیریا فاؤلری کا کیس رپورٹ ہوتا ہے تو جس علاقے سے مریض کا تعلق ہوتا ہے ہماری ٹیم اس علاقے جاتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو آگاہ کرتی ہے کہ آپ کے علاقے کے پانی میں نیگلیریا فاؤلری پایا گیا ہے اس لیے احتیاط کریں، یہ آگاہی اس علاقے کے ہر ایک گھر کو دی جاتی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ نیگلیریا فاؤلری کیس رپورٹ ہونے کے بعد اس علاقے میں آگاہی کے علاوہ ٹیم کیا کرتی ہے، تو انہوں نے کہا: ’ہم آگاہی کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں؟ ہم پانی کو صاف تو نہیں کر سکتے یا روڈ کی تعمیر تو نہیں کر سکتے۔ ہاں متعلقہ اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ پانی کو عالمی ارادہ صحت کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق صاف کرکے دیا جائے۔‘

نیگلیریا کے کیس کراچی سے ہی کیوں رپورٹ ہوتے ہیں؟

ہر سال پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی نسبت نیگلیریا فاؤلری کے کیس کی اکثریت کراچی سے ہی رپورٹ ہوتی ہے۔ اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا: ’ایک تو کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، جس کی آبادی کئی شہروں سے زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نل کا پانی نہیں ملتا اور وہ ٹینکر کا پانی خریدتے ہیں اور ٹینکر کے پانی کا معیار بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کی 50 یونین کونسلوں سے پانی کے لیے گئے نمونوں میں سے 95 فیصد میں نیگلیریا مثبت آیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ایک تو کراچی میں ایسے کیسوں کے رپورٹ ہونے کے باعث لوگوں میں آگاہی ہے اس کے علاوہ کراچی میں پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت ہسپتالوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، اور جدید ہسپتال بھی دیگر شہروں سے زیادہ ہیں جہاں دیگر امراض کی تشخیص کے علاوہ نیگلیریا کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں، اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ کیس زیادہ تر کراچی میں ہی رپورٹ ہوتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر قیصر کے مطابق: ’نیگلیریا کے کیس دیگر شہروں میں بھی ہوتے ہوں گے مگر ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث رپورٹ نہیں ہوتے ہوں گے کیوں کہ اس جرثومے کے متاثر ہونے کے بعد چند دن تک سر درد، بخار یا غنودگی کے بعد اگر کوئی فرد ہلاک ہوجاتا ہے تو گھر والے سمجھتے ہیں کہ کرونا تھا یا کوئی اور بیماری تھی مگر اصل میں نیگلیریا کا ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث دیگر شہروں سے کیس سامنے نہیں آتے۔ میرے خیال پاکستان میں نیگلیریا کے کیس بڑی تعداد میں ہوتے ہیں، مگر یہ کیس خاموش ہیں۔‘ 

زیادہ پڑھی جانے والی صحت