پشاور کا ’افغان ہسپتال‘: علاج کے لیے افغانوں کی پہلی منزل

پی آئی اے اور پشاور کے ایک مقامی ہسپتال نے افغان شہریوں کے لیے علاج کی غرض سے پاکستان آمد کے طریقہ آسان بنا دیا ہے۔

رحمٰن میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ افغانستان سے لوگ علاج کے لیے بھارت جایا کرتے تھے مگر آر ایم آئی کھلنے کے بعد سے مریض یہاں آتے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

سیف الدین کا تعلق افغانستان کے صوبے مزار شریف سے ہے اور وہ عید الاضحیٰ کے دن سپین بولدک سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔

ان کی یہاں آمد کا مقصد اپنے والد کا علاج کروانا ہے جو کینسر کے مریض ہیں۔ تاہم سیف الدین کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔

افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد سے سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ اس دوران طالبان کی جانب سے کئی اضلاع پر قبضے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں جس کی افغان حکومت کی طرف سے تردید کی جا رہی ہے۔

طالبان کی جانب سے جن علاقوں پر قبضوں کے دعوے کیے جا رہے ہیں ان میں بعض پاکستان سے جڑی سرحد کے قریبی علاقے بھی شامل ہیں جہاں کی چیک پوسٹس پر طالبان نے کنٹرول حاصل کرنے کا دعوی بھی کیا ہے۔

سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان جھڑپوں کے باعث ہزاروں کے تعداد میں افغان شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں، جبکہ افغانستان سے علاج کی غرض پاکستان آنے والے کئی شہری بھی وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

سیف الدین نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے جس راستے سے پاکستان آنا تھا وہ لڑائی کی وجہ سے بند تھا۔ اس لیے مجھے کابل اور قندھار سے ہو کر یہاں (سپین بولدک) آنا پڑا۔‘

’وہاں پر بھی لڑائی ہو رہی تھی اور بارڈر بند تھا۔ عید الاضحیٰ پر موقع ملا تو میں بارڈر کراس کر کے یہاں آ گیا۔‘

سیف الدین سپین بولدک سے بلوچستان کے علاقے چمن پہنچے اور وہاں سے بذریعہ سڑک کراچی اور آخر کار پشاور کے مقامی ہسپتال میں اپنے والد کو علاج کے لیے داخل کروا دیا۔

 

افغانستان میں جہاں طالبان جنگجوؤں اور حکومتی فورسز کے درمیان جھڑپیں چل رہی ہیں، یہ سفری مشکلات ہر اس افغان شہری کو سامنا کرنا پڑ رہی ہیں جو علاج کے لیے پاکستان آنا چاہتا ہے۔

مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ کبھی پشاور افغان شہریوں کے لیےعلاج معالجے کی پہلی منزل ہوا کرتا تھا۔  

رحمٰن میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ایڈمن ڈاکٹر محمد طارق خان کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب شروع کے سالوں میں اسے ’افغان ہسپتال‘ کہا جاتا تھا۔

’افغانستان سے لوگ علاج کے لیے بھارت جایا کرتے تھے۔ جب آر ایم آئی کھلا تو لوگوں نے یہاں آنا شروع کر دیا کیونکہ ہماری خدمات بھارت سے بہتر تھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ افغان مریضوں کو قریب پڑتا تھا۔ ’یہاں زبان کا مسئلہ نہیں تھا سواری کا مسئلہ نہیں تھا۔ دن کو آتے تھے شام کو واپس چلے جاتے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیکل ٹور ازم کا جو معیشت پر اثر تھا وہ بہت بڑا تھا۔ خاص کر خیبر پختونخوا کی معیشت پر۔

’دوسرا یہ کہ بھارت کا جو اثرو رسوخ وہاں پر بن رہا تھا وہ ہم نے کافی حد تک ختم کر دیا تھا۔ لوگوں کا رخ دوبارہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کی طرف ہو گیا تھا۔‘

رحمٰن میڈیکل انسٹیٹیوٹ نے قومی ایئرلائن پی آئی اے کے توسط سے افغان شہریوں کے لیے علاج معالجے کی خاطر پاکستان آمد کو انتہائی آسان بنا دیا ہے۔

اب ایسے مریض جو اپنا علاج کروانے پاکستان آنا چاہتے ہیں انہیں ضروری دستاویزات جمع کروانے کے 24 گھنٹے کے اندر اندر ویزا جاری ہو جاتا ہے اور پی آئی اے کی پرواز انہیں اسلام آباد لے آتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سہولت کو حکومت پاکستان کی میڈیکل ٹورازم پالیسی کے تحت لاگو کیا گیا ہے۔  میڈیکل ٹورازم کی اس سہولت کو حاصل کرنے والے ایک افغان شہری عبداللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرا تعلق افغانستان کے صوبے لوغر سے ہے۔ میں ویزا لگوا کر جہاز سے اسلام آباد اور وہاں سے پشاور اس ہسپتال میں گاڑی پر آیا ہوں۔

’مجھے دل کی بیماری ہے۔ پورے افغانستان میں اس وقت مریض زیادہ ہیں کیونکہ سرحد بھی بند ہے۔ اب ہر آدمی جہاز میں تو یہاں نہیں آ سکتا نا۔

’میں نے 72 ہزار روپے کا ٹکٹ لیا تھا۔ اکثریت غریب مریضوں کی ہے وہ کیسے آئیں گے؟ جہاز سے ہر کوئی نہیں آ سکتا۔ وہاں ہزاروں لاکھوں بیمار ہیں۔‘

ماضی میں جب افغان شہری براہ راست پاکستان آتے تھے تو انہیں سکیورٹی ایجنسیوں کی جانچ پڑتال کے ایک طویل عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔

مگر اب میڈیکل ٹورازم کی وجہ سے کافی نرمی ہو گئی ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رحمٰن میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں افغان مریضوں کے فوکل پرسن محمد طارق خان نے بتایا کہ جب افغان مریض براہ راست آتے تھے تو اس وقت سکیورٹی اداروں کا بہت عمل دخل تھا۔

’وہ خود بھی معلومات اکٹھی کرتے تھے اور ہم نے بھی مریض کی معلومات جمع کروانی ہوتی تھی۔ اس وقت پابندیاں بہت تھیں لیکن اب پاکستان حکومت نے میڈیکل ٹورازم کو فروغ دینے کے لیے کچھ ضابطے بنائے ہیں جو بہت اچھے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’افغان مریض ویزا ملنے کے بعد جب پاکستان آتے ہیں تو اسی وقت سکیورٹی ادارے ان کی جانچ پڑتال کر لیتے ہیں جس کے بعد وہ یہاں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان