انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے انڈونیشیا کی فوج کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے کہ اس نے فوج میں بھرتی ہونے والی خواتین کیڈٹس کے کنوارے پن کے متنازع ٹیسٹ ختم کر دیے ہیں۔
ان ٹیسٹس میں ڈاکڑز خواتین کے ہایئمن (پردہ بکارت) کا یہ تصدیق کرنے کے لیے معائنہ کرتے تھے کہ آیا وہ جنسی عمل کر چکی ہیں یا نہیں۔
تاہم اب انڈونیشیا کی فوج کے چیف آف سٹاف نے منگل کو تصدیق کی ہے یہ ٹیسٹس اب نہیں کیے جا رہے۔
سماجی کارکن کئی سال سے ان نام نہاد ’ٹو فنگر ٹیسٹس‘ کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔
انڈونیشیا کی فوج ان ٹیسٹس کے دفاع میں پہلے کہہ چکی ہے کہ یہ نئی بھرتیوں کے اخلاقیات کو جاننے کے لیے اہم ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کا عالمی ادارہ ہیومن رائٹس واچ، جو ان پر کئی تحقیقات کر چکا ہے، نے انہیں منظم، بدسلوکی اور ظالمانہ قرار دیا ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد کے نیشنل کمیشن کے سربراہ اینڈی ینتریانی نے کہا کہ ’ان ٹیسٹوں کی کبھی ضرورت ہی نہیں تھی‘ جبکہ عالمی ادارہ صحت کہہ چکا ہے کہ ان کی کوئی ’سائنسی بنیاد نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انڈونیشیا کی فوج کے سربراہ اندیکا پرکاسا نے کہا: ’معائنے میں یہ جانچ کی جاتی تھی کہ آیا پردہ بکارت مکمل طور پر یا جزوی طور پر ٹوٹا ہے، اب ایسا نہیں کیا جا رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مردوں اور خواتین کے لیے فوج میں بھرتی کا عمل برابر ہونا چاہیے۔
بحریہ اور فضائیہ نے بھی اپنی بھرتیوں کے عمل میں ان ٹیسٹس کی شمولیت کی تردید کی ہے، تاہم بحریہ کے لیے ایک ترجمان نے کہا کہ حمل کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
فضائیہ کے ترجمان نے کہا کہ خواتین کے تولیدی نظام کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ سسٹس اور دیگر پیچیدگیوں کا پتہ لگایا جا سکے۔
فوج کے اعلان کے بعد ہیومن رائٹس واچ کے انڈونیشیا کے لیے ری سرچر اندریاس ہارسونو نے کہا کہ یہ کرنا ’صحیح کام تھا‘ اور یہ ٹیسٹس ’توہین آمیز، امتیازی اور صدمہ پہنچانے والے عمل تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹس واچ نے فوج میں بھرتی ہونے والی ایک سو سے زائد خواتین سے بات کی تھی جن پر یہ ٹیسٹ کیے گئے۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ 1965 میں ان کا ٹیسٹ کیا گیا۔
© The Independent