غیر قانونی طریقے سے ایران جانے والوں کو بلوچستان کا صحرا ’کھا گیا‘

سوشل میڈیا پر موجود اس ویڈیو میں یہ ساتوں افراد انتہائی خوش نظر آ رہے ہیں۔ یہ لوگ پنجاب سے کوئٹہ اور بعد میں بلوچستان  کے ایران سے ملحقہ علاقے چاغی پہنچے۔

ویڈیو میں نظر آنے والے یہ لوگ غیر قانونی طور پر ایران جانے کے لیے ایک ایجنٹ کے ذریعے سفر کر رہے تھے (سکرین گریب/ رانا زاہد حسین) 

پنجاب سے تعلق رکھنے والے چند افراد کی ایک ویڈیو گذشتہ ماہ منظر عام پر آئی جس میں انہیں ایک صحرا میں دیکھا جا سکتا ہے، بظاہر تو یہ افراد اس ویڈیو میں خوش دکھائی دے رہے تھے اور لگ ایسا رہا تھا جیسے وہ سیر و تفریح کے مقصد سے وہاں موجود ہیں، لیکن ایسا تھا نہیں۔

ویڈیو میں نظر آنے والے یہ لوگ غیر قانونی طور پر ایران جانے کے لیے ایک ایجنٹ کے ذریعے سفر کر رہے تھے لیکن یہ سفر ان میں سے بعض کے لیے آخری سفر ثابت ہوا۔ 

پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے رانا زاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے بھائی سجاد جو کئی سالوں سے ایران میں مزدوری کر رہے تھے، اپنے خاندان کے سات افراد کے ساتھ تین اگست کو ایران جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’ان سات افراد سجاد، بلال، خلیق الرحمان، ابوبکر،عثمان، قیصر اور محمد فیاض نے پانچ اگست کو ہمیں ایک ویڈیو بھیجی جس میں انہیں ایک صحرا میں دیکھا جا سکتا تھا۔‘

سوشل میڈیا پر موجود اس ویڈیو میں یہ ساتوں افراد انتہائی خوش نظر آ رہے ہیں۔ یہ لوگ پنجاب سے کوئٹہ اور بعد میں بلوچستان  کے ایران سے ملحقہ علاقے چاغی پہنچے۔

رانا زاہد حسین کہتے ہیں کہ جب ان کی اپنے بھائی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایجنٹ کے ساتھ کچھ مسائل چل رہے ہیں۔

’ایجنٹ زیادہ پیسے مانگ رہا تھا، جب کہ میرے بھائی انہیں کم پیسوں پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بعد میں ایجنٹ انہیں ایک پک اپ گاڑی میں بٹھا کر چار گھنٹے تک سفر کراتا رہا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایجنٹ نے انہیں ایک صحرا میں پہنچا کر کہا کہ وہ ان کے لیے پانی اور کھانا لینے جا رہا ہے۔‘

’میرے بھائی کو شک ہوا کہ ایجنٹ ان کے ساتھ کوئی مسئلہ کر سکتا ہے۔ جس پر انہوں نے ایجنٹ سے التجا کی کہ وہ جتنے پیسے مانگتا ہے وہ دینے کے تیار ہیں لیکن انہیں یہاں سے لے جائے۔ بہت منت سماجت کرنے کے باوجود ایجنٹ نہیں مانا اور انہیں وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔‘

رانا زاہد نے بتایا کہ ’اس دوران چھ اگست کی صبح گرمی کی شدت کے باعث میرے بھائی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ جس کے بعد ان میں سے تین لوگ پانی کی تلاش میں نکل پڑے۔ لیکن بہت دیر گزرنے کے بعد بھی وہ واپس نہیں آئے، باقی چار افراد رہ گئے۔ اس دوران طبیعت زیادہ بگڑنے پر میرے بھائی کی موت واقع ہو گئی۔ ان کے ساتھ موجود باقی تینوں افراد لاش کو اٹھا کر کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں نکل پڑے لیکن انہیں ہرطرف صحرا ہی ملا۔‘

’کافی چلنے کے بعد یہ لوگ لاش کو مزید نہیں اٹھا سکے تو انہوں نے اسے وہی ایک جگہ محفوظ کر کے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی جگہ تلاش کرکے، پانی وغیرہ ملنے کے بعد دوبارہ اسے اٹھا سکیں۔ اس دوران یہ تینوں بھی راستے میں کہیں بے ہوش ہو گئے۔ جنہیں ایک گاڑی والے نے دیکھ کر نوکنڈی ہسپتال پہنچا دیا۔ اس دوران خلیق الرحمٰن بھی نوکنڈی کے ہسپتال میں دم توڑ گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زاہد کے مطابق: ’زندہ بچ جانے والے افراد نے ہمیں اس واقعے کی اطلاع دی اور اس طرح ہمیں ان کے بارے میں پتہ چلا۔‘

جو تین لوگ پانی کی تلاش میں گئے تھے ان کے بارے میں زاہد بتاتے ہیں کہ ’انہیں بھی ایک گاڑی والے نے کوئٹہ پہنچا دیا۔ جب کہ میرے بھائی اور بھانجے کی لاش وہیں رہ گئی۔‘

رانا زاہد حسین نے اب مطالبہ کیا ہے کہ ان کے بھائی سجاد اور بلال کی لاشیں وہیں صحرا میں ہیں جنہیں لانے میں ان کی مدد کی جائے۔ 

زاہد کہتے ہیں کہ جو لوگ بچ گئے تھے انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ دس 15 منٹ دوڑنے کے بعد بے ہوش ہوگئے اور بعد میں یہاں سے گزرنے والی ایک گاڑی جو شاید سمگلرز کی تھی انہوں نے اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ جب یہ لوگ بہتر ہوئے تو انہیں گاڑی میں بٹھا کر کوئٹہ بھجوا دیا۔

اس دوران ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک لاش کو صحرا میں پڑے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس لاش کا کچھ حصہ مٹی میں دبا ہوا تھا جب کہ اس کے پاس ایک شناختی کارڈ بھی رکھا ہوا تھا۔ جس پر نام بلال ولد دلشاد لکھا تھا۔ 

اس تصویر کو وائرل ہوئے کئی ہفتے گزر گئے تاہم گذشتہ روز ڈپٹی کمشنر چاغی آغا شیر زمان نے تصدیق کی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو افراد جو تحصیل تفتان کے علاقے میں لاپتہ ہوئے ہیں کی لاشیں مل گئی ہیں۔ 

یاد رہے کہ بلوچستان کے ایران سے متصل تمام ملحقہ علاقوں جن میں مکران اور ضلع چاغی کے علاقے شامل ہیں سے ’انسانی سمگلنگ‘ کی جاتی ہے۔ 

انسانی سمگلنگ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ترکی سمیت یورپی ممالک بھی غیر قانونی طور پر آنے والے افراد کے روک تھام کے لیے سرحدوں پر سخت نگرانی کے علاوہ دیواریں بھی تعمیر کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان