1926 میں ’قیدیوں‘ کی منتقلی کے لیے استعمال کی جانے والی ’سرنگ‘

یہ سرنگ برطانوی حکمرانوں کی جانب سے سال 1926 میں سیاسی قیدیوں کو عدالت لانے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔

یہ سرنگ بھارت کے مشہور لال قلعہ کو دہلی کی قانون ساز اسمبلی کی عمارت سے ملاتی ہے(اے ایف پی)

بھارت کے ایک مقامی اخبار کی رپورٹ میں ایک بھارتی سیاست دان کا کہنا ہے کہ انہوں نے برطانوی نوآبادیاتی دور کی سرنگ نما تعمیر کو ڈھونڈ نکالا ہے جو ملک کے دارالحکومت کے قلب میں واقع ہے۔

انہوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ سرنگ دو تاریخی مقامات کو ملاتی ہے جو بھارت میں برطانوی حکمران سال 1947 تک آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو منتقل کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے تاکہ وہ آزادی کے لیے لڑنے بھارتی فوجیوں کے ردعمل سے بچ سکیں۔

یہ سرنگ بھارت کے مشہور لال قلعہ کو دہلی کی قانون ساز اسمبلی کی عمارت سے ملاتی ہے۔ لال قلعہ 17ویں صدی میں مغل بادشاہوں کی رہائش گاہ تھی۔ یہ سرنگ برطانوی حکمرانوں کی جانب سے سال 1926 میں سیاسی قیدیوں کو عدالت لانے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔

یہ دونوں تاریخی مقامات جن میں لال قلعہ اور قانون ساز اسمبلی شامل ہیں شمال مشرقی دہلی اور شمالی دہلی میں واقع ہیں۔ یہ دونوں مقامات اس جنوبی ایشیائی ملک میں برطانوی دور حکمرانی کے دوران اہم مقامات تھے۔

دہلی کی اسمبلی کے سپیکر رام نواس گوئل نے اس دریافت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں 1993 میں قانون ساز اسمبلی کا رکن بنا تھا تو یہ بات کہی جاتی تھی کہ یہاں ایک سرنگ موجود ہے جو لال قلعے تک جاتی ہے۔ میں نے اس کی تاریخ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس پر کوئی وضاحت سامنے نہ آ سکی۔‘

گوئل کے مطابق وہ اب اس سرنگ کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں لیکن وہ اس سرنگ کے راستے میں آنے والے ترقیاتی منصوبوں کے باعث اس تحقیق کو مزید جاری نہ رکھنے پر مجبور ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم اس سرنگ کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں لیکن ہم مزید کھدائی نہیں کر رہے کیونکہ اس سرنگ تک جانے والے راستے میٹرو پروجیکٹ اور سیور لائنز کے باعث تباہ ہو چکے ہیں۔‘

اسمبلی کے سپیکر کے مطابق برطانوی دور حکمرانی کے دوران 19ویں صدی سے 20ویں صدی کے وسط تک دہلی کی قانون ساز اسمبلی کا ہال بھارت کی قانون ساز اسمبلی کے ہال کے طور استعمال ہوتا تھا۔

گوئل نے دہلی اسمبلی کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’سال 1926 میں آزادی سے کچھ دہائیاں قبل اس اسمبلی کو عدالت میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور اسے بھارت کی آزادی کے لیے لڑنے والے سیاسی قیدیوں کی پیشی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریاست دہلی کے سربراہ ارویند کیجریوال کی انتظامیہ اب دارالحکومت کی اسمبلی کے نیچے دریافت ہونے والے مقام کو ان لوگوں کی یادگار کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جنہوں نے ملک کی آزادی میں کردار ادا کیا تھا۔

رام نواس گوئل کا کہنا ہے کہ ’ہم یہاں پھانسی گھاٹ کی موجودگی کے بارے میں بھی جانتے ہیں لیکن کبھی اسے کھولا نہیں گیا۔ اب جب ملک کی آزادی کو 75 سال بیت چکے ہیں تو میں نے اس کمرے کے معائنے کا فیصلہ کیا۔ ہم اس کمرے کو آزادی کی جنگ لڑنے والوں کی یادگار میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ انہیں خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔‘

گوئل کے مطابق یہ مقام اگلے سال سے سیاحوں کے لیے بھی کھول دیا جائے گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اس پر کام شروع ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اس مقام کی ایک بہت بڑی تاریخ ہے جو آزادی کی جدوجہد کے تناظر میں بہت اہم ہے۔ ہم اس کی تزئین نو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہاں آنے والے سیاح ہماری تاریخ سے آگاہ ہو سکیں۔‘

برطانوی حکمرانوں نے سال 1947 میں بھارت پر ایک صدی حکمرانی کے بعد اسے چھوڑا تھا۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں بھارت میں کئی بغاوتیں ہوئی تھیں۔ جو 1920 کی دہائی میں اس وقت زور پکڑ گئی تھیں جب مہاتما گاندھی اور نیشنل کانگریس کے کئی اور رہنماؤں نے بڑی تحریکوں میں برطانوی حکمرانی کو ختم کرنے اور آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔

بھارت ہر سال 15 اگست 1947 کی مناسبت سے اپنا یوم آزادی مناتا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا