پاکستان میں کنٹینرز کی قیمتیں 10 ہزار ڈالرز سے تجاوز کیوں کر گئیں؟

مال کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز کی قیمتیں کئی گناہ بڑھ گئی ہیں۔ تین ہزار ڈالرز کا ملنے والا کنٹینر اب 10 ہزار ڈالرز کا ملتا ہے۔

18 جون 2021 کو لی جانے والی اس تصویر میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں لاس اینجلس کی بندرگاہ پر رکھے گئے کنٹینرز دیکھے جا کتے ہیں کن کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے (اے ایف پی فائل)

فریٹ کی شرح میں اضافہ اور کنٹینرز کی قلت ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے جس کی وجہ سے تمام صنعتوں کی سپلائی چینز اثر انداز ہو رہی ہیں۔ پچھلے چھ سے آٹھ ماہ کے دوران نقل و حمل کے چینلز میں فریٹ یعنی مال کی ترسیل کی شرح کئی گناہ بڑھ چکی ہے۔ اس سے متعلقہ شعبوں اور صنعتوں مثلا آٹو مینوفیکچرنگ وغیرہ پر مختلف اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

عالمی سطح پر فریٹ اور مال کی قیمتوں میں بے حد اضافے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اور اس سے پاکستان کیسے انداز ہورہا ہے یہ جاننے کے لیے چند ماہرین سے گفتگو کی گئی ہے۔

تجارتی امور کے تجزیہ کار سمیع اللہ طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فریٹ کی قیمتوں میں چار سے پانچ گناہ اضافہ ہوگیا ہے جس سے عالمی سطح پر درآمدات اور برآمدات کافی اثر انداز ہوئے ہیں۔

اس کے نتیجے میں مال کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز کی قیمتیں کئی گناہ بڑھ گئی ہیں۔ تین ہزار ڈالرز کا ملنے والا کنٹینر اب 10 ہزار ڈالرز کا ملتا ہے۔ اس سے پاکستان کی درآمدات بے حد اثر انداز ہورہی ہیں۔‘

انہوں نے کنٹینرز کے مہنگے ہونے کی وجوہات کے حوالے سے مذید بتایا کہ ’کرونا کے باعث شپنگ کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ دراصل ہوا بازی کی صنعت پر لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے سامان کی ترسیل کے لیے سمندری نقل و حمل پر زیادہ دباؤ پڑا ہے۔‘

اس کے نتیجے میں کنٹینرز کا ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ کسی شپنگ آرڈر پر گئے ہوئے کنٹینرز کے دیر سے لوٹنے کا سیدھا اثر کسی دوسری کمپنی کی درآمدات اور برآمدات پر پڑتا ہے۔‘

تاہم اشیا کی بڑھتی ہوئی مانگ اور خالی کنٹینرز کی کمی نے ان کی قیمتیں اس قدر بڑھا دی ہیں کہ انہیں کرونا وبا سے پہلے والی قیمتوں پر آںے میں اب کافی وقت لگے گا۔‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے گارمنٹس ایکسپورٹر ایزام قاضی اپنی کمپنی نور اپیرلز کی اشیا امریکہ کے شہر نیویارک تک برآمد کرتے ہیں۔ پاکستان کے دیگر ایکسپوٹرز کی طرح ایزام کی کمپنی کی درآمداد بھی 40 فٹ کے کنٹینرز کی قلت اور مہنگی قیمتوں کی نظر ہوگئی ہے۔

ایزام قاضی کے مطابق ’نومبر 2020 میں کراچی سے نویارک تک سامان بھیجنے کے لیے 40 فٹ کا کنٹینر تقریبا 3900 ڈالرز میں دیستاب تھا۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں اس کی قیمت تقریبا 6460 ڈالرز تھی جبکہ رواں ماہ ایک کنٹینر کی قیمت 10450 ڈالرز ہے۔‘

انہیں حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اگلے ماہ اکتوبر سے کنٹینرز کی قیمت میں مزید 3500 ڈالرز کے اضافے کی توقع ہے۔

انہوں نے مذید بتایا کہ: ’کراچی سے نیویارک تک بھیجے جانے والے گارمنٹس کی قیمت میں مال کی ترسیل یعنی فریٹ کی قیمت بھی شامل ہوتی ہے۔ ذیادہ مال کی ہی بکنگ لی جاتی ہے اور اس مال کی ترسیل کئی حصوں ہر مشتمل ہوتی ہے جس میں کچھ ماہ لگ جاتے ہیں۔

ہم ایک ماہ میں 40 فٹ کے دو کنٹینرز اور پانچ ماہ میں 10 کنٹینرز بھیجتے ہیں اور ہر کنٹینر میں گارمنٹس کے 15 ہزار پیسز موجود ہوتے ہیں۔ ہر ماہ ہمیں 1000 سے 2000 ڈالرز کے اضافی چارجز دینے پڑ جاتے ہیں جس کا اثر سیدھا ہمارے گاہک کی جیب پر پڑتا ہے جس کی ترجیح سستی اشیا خریدنا ہے مہنگی نہیں۔‘

کاروبار میں پیش آںے والی مشکلات کے حوالے سے ایزام قاضی کا کہنا تھا کہ ’ہماری درآمدات میں ایک سے دو فیصد کے منافع کا مارجن ہوتا ہے۔ ذیادہ مقدار یعنی بلک میں بھیجے جانے والے سامان میں بھی صرف آٹھ سے 12 فیصد منافع ہوتا ہے۔ مگر آج کی تاریخ میں یہ منافع بھی ختم ہوگیا ہے۔‘

انہوں نے مذید بتایا کہ: ’پہلے کنٹینرز خریدنا بے حد آسان تھا۔ صرف چند دنوں میں ہی مل جایا کرتے تھے مگر اب بکنگ کے بعد تین سے چار ہفتوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پہلے ہم ایک ماہ میں دو کنٹینر بھیجتے تھے اب صرف ایک ہی بھیج پاتے ہیں۔ مال کی ترسیل میں جتنا وقت لگتا ہے، شپنگ کے اخراجات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں اور ہمیں گاہک سے رقم اتنی ہی دیر میں ملتی ہے۔ اب تک تمام اضافی چارجز ہم اپنی جیب سے ہی ادا کر رہے ہیں۔‘

مذکورہ وجوہات کے علاوہ مال کی ترسیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ چین میں خالی کنٹینرز کی اضافی مانگ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیئرمین آف شپس ایجنٹس ایسوسیشن محمد اے راجپر کا کہنا تھا ’چین نے باقی ممالک کے مقابلے میں کرونا کی روک تھام پہلے کرلی جس کے باعث ان کی مینوفیکچرنگ کا عمل بھی پہلے شروع ہوگیا۔ نتیجاتا چین میں خالی کنٹٰینرز کی مانگ باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ بڑھی۔ وہ خالی کنٹینرز کے لیے سب سے زیادہ قیمت دینے کے لیے تیار تھے۔‘

انہوں نے مذید بتایا کہ ’چین میں بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے پاکستان میں خالی کنٹینرز کی قلت ہوگئی جو کہ ایک کافی عجیب بات ہے۔ پاکستان میں جو بھی خالی کنٹینرز آتے تھے وہ چین درآمد کردیے جاتے ہیں کیوں کہ چین کنٹینرز کی ذیادہ قیمت دے رہا ہے۔‘

اس کے علاوہ کے بہت بڑا مسئلہ بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے آرڈرز کا بھی ہے۔ جو شپمنٹس بندرگاہ پر بھیجی جاتی ہیں وہ تین سے چار ہفتوں تک بندرگاہ پر ہی موجود رہتی ہیں آگے نہیں جاتیں کیوں انہیں لینے کے لیے کبھی شپ دیر سے پہنچتا ہے تو کبھی کنٹینرز قلت ہوجاتی ہے۔

چئیرمین پاکستان شپس ایجنٹس ایسوسیشن محمد اے راجپر نے اس مسئلے کو عالمی مسئلہ قرار دیا ہے جس میں چین، امریکہ اور یورپ کا سب سے بڑا کردار ہے۔

ان کا  کہنا تھا کہ: ’چین کیوں کہ دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرر ہے اس لیے امریکہ اور یورپ جیسے مغربی ممالک چین سے آنے والی اشیا پر بے حد انحصار کرتے ہیں۔ تاہم یہ مغربی ممالک چین سے سامان خریدنے کے لیے دو سے تین گنا قیمت دینے پر آمادہ ہیں۔‘

دوسری جانب جہاں عالمی وبا کرونا کے باعث کنٹینر کی دستیابی میں کافی حد تک کمی آئی ہے وہیں چین میں مغربی ممالک کے انحصار کی وجہ سے کنٹینرز کی بہت زیادہ مانگ بڑھ گئی۔

اب کیوں کہ چین میں فریٹ کی قیمت کافی اوپر ہیں اس کی وجہ سے باقی ممالک میں بھی کنٹینرز مہنگے ہوگئے ہیں اور ان کی قلت ہوگئی ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت