پنک اکتوبر: لوگوں کی بجائے اپنی چھٹی حِس کی سنیں

خواتین کو اپنی زندگی کی ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھنی چاہیے۔ لوگوں کی باتوں میں آکر زندگی سے ہاتھ دھونے سے بہتر ہے کہ اپنی چھٹی حس پر دھیان دے کر اپنی زندگی بچائی جائے۔

ماہرین  کہتے ہیں کہ ہر عورت کو تین ماہ بعد اپنی چھاتیوں کا خود معائنہ کرنا چاہیے اور 45 سال سے زائد عمر کی خواتین کو سال میں ایک دفعہ میموگرافی ضرور کروانی چاہیے (فوٹو: پکسابے)

پاکستان میں ہر سال بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کے سرطان سے 45 ہزار خواتین کی اموات ہوتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بروقت تشخیص اور علاج سے 99 فیصد کیسز میں مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر عورت کو تین ماہ بعد اپنی چھاتیوں کا خود معائنہ کرنا چاہیے اور 45 سال سے زائد عمر کی خواتین کو سال میں ایک دفعہ میموگرافی ضرور کروانی چاہیے لیکن ہم میں سے کتنی عورتیں اپنی صحت کا اس قدر خیال رکھتی ہیں؟

ہمیں لگتا ہے کہ دیگر بیماریوں، آفتوں اور دکھوں کی طرح چھاتی کا سرطان بھی دوسروں کو ہی ہوگا اور ہم اس سے بچ جائیں گے۔ اللہ سب کو اس سے اور دیگر بیماریوں سے بچا کر رکھے لیکن کون سا مرض کب اور کسے ہو جائے، یہ کون جانتا ہے۔

لاہور کی رہائشی گلناز ایاز نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں چھاتی کا سرطان ہو گا۔ ان کے خاندان میں کبھی کسی کو کسی بھی قسم کا سرطان نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود سال 2014 میں انہیں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوئی تھی۔

یہ اس وقت ہوا جب وہ اپنی ٹوٹتی ہوئی شادی کو بچانے کی کوششیں کر رہی تھیں۔

اس وقت ان کی شادی کو چند ہی سال ہوئے تھے۔ ان کے شوہر دبئی میں مقیم تھے۔ وہ اپنی اڑھائی سالہ بیٹی سمیت پاکستان میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہتی تھیں۔

وہ اپنے شوہر سے کہتی تھیں کہ وہ انہیں اور ان کی بیٹی کو اپنے پاس دبئی بلائیں جبکہ ان کے سسرال والے ان کے وہاں جانے کے مخالف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ گلناز ان کے پاس ان کے کام کاج کرتے ہوئے رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گلناز اپنے اور اپنی بیٹی کے حق کے لیے جتنا لڑ سکتی تھی لڑ رہی تھیں۔ اس وجہ سے ان کے اپنے شوہر اور سسرال والوں سے تعلقات خراب رہتے تھے۔

جنوری 2014 میں انہیں اپنی چھاتی میں ایک گلٹی محسوس ہوئی۔ انہوں نے اپنے شوہر کو بتایا تو انہوں نے ان کی بات نظر انداز کر دی۔

دوسری طرف ان کے گھر والوں نے کہا کہ چونکہ وہ اپنی بیٹی کو دودھ پلاتی رہی ہیں تو یہ اس کی وجہ سے ہے۔ انہیں اس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ گلٹی چند ہفتوں میں خود ہی ختم ہو جائے گی۔

تین ماہ بعد گلناز نے محسوس کیا کہ ان کی گلٹی کا سائز پہلے کی نسبت بڑھ چکا تھا۔ ان کی چھٹی حس انہیں بار بار خبر دار کر رہی تھی۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنے شوہر سے بات کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے پھر سے انہیں ٹال دیا۔

گلناز اپنی بیٹی کو لے کر اپنے والدین کی طرف آ گئیں۔ انہوں نے اپنی امی کو گلٹی کا بتایا اور کہا کہ وہ کسی ڈاکٹر سے معائنہ کروانا چاہتی ہیں۔

اگلے کچھ ہفتے انہوں نے تین ہسپتالوں کے چکر کاٹتے ہوئے گزارے۔ انہیں ہر جگہ معائنے کے بعد کہا گیا کہ یہ وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہو جائے گی۔ گلناز پھر بھی اگلی جگہ جاتی تھیں اور اپنا معائنہ کرواتی تھیں۔

ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ہسپتالوں کی طرف سے جاری ہونے والی نئی رپورٹ میں پہلی رپورٹ کی نسبت گلٹی کا سائز بڑا تھا۔ وہ فوراً چھاتی کے سرطان کے ایک ماہر سے ملنے پہنچیں۔ انہوں نے معائنے کے بعد کہا کہ ان کے پاس دو آپشن ہیں۔ آیا وہ اس کے خود بخود ختم ہونے کا انتظار کریں یا سرجری کروالیں۔ گلناز نے سرجری کروانے کا فیصلہ کیا۔

سرجری کے بعد انہوں نے اس گلٹی کو شوکت خانم لیب میں جانچ کے لیے بھیجا۔ رپورٹ میں چھاتی کا سرطان لکھا ہوا آیا۔ مرض کی تشخیص کے بعد ان کے شوہر اور سسرال والوں نے ان سے رابطہ بالکل ختم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدین ہی ان کا علاج کروائیں۔

دوسری طرف ان کے والد نے رپورٹ دیکھ کر کہا کہ یہ بس کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ میری بیٹی ٹھیک ہو جائے گی۔

اگلے ڈیڑھ سال تک گلناز کی کئی بار کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی ہوئی۔ اس دوران ان کی واحد امید ان کی اڑھائی سالہ بیٹی تھی جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ان کا سر دباتی تھی اور انہیں کہتی تھی کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔

دوسری طرف ان کے شوہر تھے جنہیں نہ ان میں دلچسپی تھی اور نہ ان کی بیٹی میں۔ کینسر جیسا مرض بھی ان کا دل نرم نہ کر سکا تھا۔

گلناز نے اپنی شادی کو قائم رکھنے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے اپنے شوہر سے رابطہ کیا۔ وہ ان دنوں امریکہ کی امیگریشن کروا رہے تھے۔ گلناز نے ان سے کہا کہ وہ انہیں اور ان کی بیٹی کو بھی ساتھ لے کر جائیں ورنہ وہ ان کے خلاف پاکستان میں موجود امریکی سفارت خانے میں درخواست جمع کروائیں گی۔ ان کے شوہر نے دو ہفتوں بعد انہیں طلاق دے دی۔

ایسے مشکل وقت میں گلناز کو کسی نے سہارا کیا دینا تھا۔ الٹا ان کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ ان کے رشتے داروں نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی ضد کرتی تھیں۔ اس لیے انہیں طلاق ہوئی ہے۔ انہیں اس کی بجائے سسرال والوں کی خدمت کرکے ان کا اور اپنے شوہر کا فیصلہ بدلنا چاہیے تھا۔

گلناز کو اس مرض سے صحت یاب ہونے میں ڈیڑھ سال لگے۔ آج انہیں اپنا سرطان تو نہیں یاد لیکن اس کے علاج کے دوران لوگوں کے جو رویے دیکھے، وہ ضرور یاد ہیں۔

کینسر سے صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا۔ انہوں نے ایک یونیورسٹی میں ایم فل میں داخلہ لیا اور ایک مناسب سی نوکری بھی کرنے لگیں۔

ایم فل کے ایک پراجیکٹ میں انہیں ایک کہانی بیان کرنا تھی۔ انہوں نے اپنی سرطان اور رشتوں کی جنگ کو بیان کرنے کا سوچا۔ یہ چار سال میں پہلی بار تھا کہ وہ اپنی کہانی لوگوں میں بیان کر رہی تھیں۔

اس سے پہلے وہ کبھی اس بارے میں بات نہیں کر پاتی تھیں۔ اس پراجیکٹ سے انہیں اتنا حوصلہ ملا کہ انہوں نے اس کے بعد ہر جگہ، جہاں وہ اس بارے میں بات کر سکتی تھیں، آگاہی پھیلانا شروع کر دی تاکہ دیگر خواتین بھی اس کی بروقت تشخیص کرکے اپنا علاج کروا سکیں۔

وہ ہر سال اپنی میموگرافی کرواتی ہیں اور دیگر خواتین کو بھی ایسا کرنے کا کہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو اپنی زندگی کی ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھنی چاہیے۔ لوگوں کی باتوں میں آ کر زندگی سے ہاتھ دھونے سے بہتر ہے کہ اپنی چھٹی حس پر دھیان دے کر اپنی زندگی بچائی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹنس