اکتوبر کا مہینہ دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر کے متعلق آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہسپتال اس حوالے سے سیمینار منعقد کرواتے ہیں، این جی اوز آگاہی مہم چلاتی ہیں، حکومتیں اہم عمارتوں کو گلابی روشنی سے جگمگاتی ہیں، عوام میں مقبول شخصیات اپنی کپڑوں پر گلابی ربن نمایاں کر کے لگاتی ہیں اور رسائل و جرائد مضامین چھاپتے ہیں۔
میں نے سوچا میں بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال دوں۔ ایک ٹویٹ میں اپنا پیچھا کرنے والوں (فالوورز) سے درخواست کی کہ اگر وہ چھاتی کے کینسر سے صحت یاب ہونے والی کسی خاتون کو جانتے ہوں تو میرا ان سے رابطہ کروا دیں۔ ایک دوست نے جواب دیا کہ میری بہن کو یہ کینسر ہوا تھا، اس سے بات کر لو۔
چلو کام تو ہوا پر یہ کیا، بہن کی اتنی ’نازک بیماری‘ اور بھائی کو نہ صرف اس کا علم ہے بلکہ وہ بلاجھجھک اپنی بہن سے اس بارے میں بات کر سکتا ہے، اسے میری ٹویٹ کا بتا سکتا ہے، مجھ سے بات کرنے کا کہہ سکتا ہے اور اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھ بھی سکتا ہے۔ مجھے خوشی بھی ہو رہی تھی لیکن اتنا بڑا ٹیبو کیسے ٹوٹ رہا ہے، یہ دیکھ کر حیرانی بھی ہو رہی تھی۔
میں نے اگلے روز ان سے وٹس ایپ پر رابطہ کیا، کہنے لگے کال کر لو، بات کروا دیتا ہوں۔ میں نے فوراً کال کر لی۔ پتہ چلا کہ جن خاتون کو یہ بہن کہہ رہے تھے وہ ان کی خالہ زاد بہن اور بڑے بھائی کی بیوی یعنی ان کی بھابھی ہیں۔ تھوڑی بہت بات چیت کے بعد انہوں نے اپنی بھابھی کو فون پکڑا دیا۔
ان کی بھابھی کا نام کرن ہے۔ انہیں پچھلے سال چھاتی کا کینسر ہوا تھا۔ انہوں نے جیسے ہی اپنے جسم میں کینسر کی علامات محسوس کیں، فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور ان کی ہدایات کے مطابق اپنا علاج کروایا۔ آج یہ کینسر سے محفوظ زندگی گزار رہی ہیں۔
کرن نے بتایا کہ ان کے خاندان میں کئی خواتین کو بریسٹ کینسر رہ چکا ہے۔ جنہوں نے بروقت علاج کروایا وہ صحت یاب ہو گئیں اور جنہوں نے دیر کر دی یا شرم کی وجہ سے علاج نہیں کروایا وہ اس کا شکار ہو گئیں۔ ان کی والدہ کی وفات بھی بریسٹ کینسر کی ہی وجہ سے ہوئی تھی۔ انہوں نے علاج کروانے سے انکار کر دیا تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ وہ ہسپتال گئیں تو صحت یاب نہیں ہو سکیں گی۔ گھر والوں نے بہت سمجھایا پر وہ نہیں مانیں۔ ہومیو پیتھک ادویات کھاتی رہیں اور دم کرواتی رہیں۔ جب کینسر بہت بڑھ گیا تو مجبوراً ہسپتال جانا پڑا، کیموتھراپی ہوئی لیکن علاج کا وقت گزر چکا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں ان کی وفات ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرن جانتی تھیں کہ انہیں بھی چھاتی کا سرطان ہو سکتا ہے لیکن ہو جائے گا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ کرن نے پچھلے سال اپنی بغل میں کچھ گلٹیاں محسوس کیں۔ انہوں نے فوراً اپنے شوہر کو بتایا۔ دونوں اگلے ہی روز شوکت خانم ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کروانے کا کہا۔ ٹیسٹ کے نتائج آئے تو ان کے خدشے کی تصدیق ہو گئی۔ انہیں چھاتی کا سرطان تھا۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ کینسر ابھی پھیلا نہیں تھا اور آسانی سے ختم کیا جا سکتا تھا۔ کرن اور ان کے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کینسر کا علاج کروائیں گے، جیسا ڈاکٹر کہے گا ویسا کریں گے، دوسری، تیسری یا چوتھی رائے کے چکر میں نہیں پڑیں گے۔
کرن کا علاج شروع ہوا۔ وہ پریشان تو تھیں پر ان کے گھر والوں نے انہیں بہت حوصلہ دیا۔ ان کی ایک دور دراز کی رشتے دار بھی ماضی میں بریسٹ کینسر کا شکار رہ چکی ہیں۔ انہیں علم ہوا تو انہوں نے کرن سے رابطہ کیا اور ان کی ہمت بندھائی۔ کرن کہتی ہیں ان کی باتوں نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔
اگلے آٹھ ماہ کٹھن تھے۔ پہلے کرن کو دوائیوں پر رکھا گیا، پھر ان کی کیمو تھیراپی ہوئی اور اس کے بعد سرجری۔ اب کرن کچھ ادویات کھاتی ہیں تاکہ کینسر لوٹ کر نہ آ سکے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اس دوران کسی نے کبھی کوئی طعنہ دیا ہو یا دل دکھانے والی بات کی ہو۔ کرن نے کہا کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ شاید اس کی وجہ ان کے خاندان میں بریسٹ کینسر کی ہسٹری ہے۔ یہ لوگ شرم کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ اگر اس کینسر کا علاج وقت پر صحیح جگہ سے کروایا جائے تو اس سے صحت یاب ہو جا سکتا ہے۔
کرن نے کہا کہ ویسے تو ہر عورت کو ایک مخصوص عمر کے بعد باقاعدگی سے اپنی چھاتیوں کا معائنہ کروانا چاہیے لیکن جن خاندانوں میں بریسٹ کینسر کی ہسٹری ہو ان کی خواتین کو اس حوالے سے کوئی رسک نہیں لینا چاہیے۔ وہ اپنی چھاتیوں، بغلوں اور اس سے ملحقہ حصوں میں ہونے والی کسی بھی تبدیلی کی صورت میں (علامات کی تفصیل یہاں پڑھیے) فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور اپنا علاج کروائیں جیسے انہوں نے کروایا۔