صرف ایک غلط کمانڈ بندش کا باعث بنی: فیس بک

فیس بک کی بندش جس نے اس کی تمام خدمات بشمول وٹس ایپ اور انسٹاگرام کو متاثر کیا، اس کا نتیجہ چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ کو ہونے والے تقریباً سات ارب ڈالر کے ذاتی نقصان کی صورت میں نکلا۔

چار اکتوبر 2021 کو فیس بک، انسٹاگرام اور وٹس ایپ کی بندش پر مارک زکربرگ نے صارفین سے معذرت کی ہے(اے ایف پی فائل)

بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے کہا ہے کہ فیس بک کی تاریخ میں سب سے بڑی بندش کی وجہ ایک غلط کمانڈ تھی اور یہ ’غلطی خود ہم سے ہوئی۔‘

فیس بک نے منگل کو ایک نئی پوسٹ میں کہا ہے کہ ’بلا اجازت رسائی کو روکنے کے لیے ہم نے اپنے نظام کو مضبوط  بنانے کے لیے بہت سا کام کیا ہے اور یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب ہم نے بدنیتی پر مبنی عمل کی بجائے خود اپنی غلطی کی وجہ سے ہونے والی بندش سے باہر آنے کی کوشش کی تو نظام کو مضبوط بنانے کے عمل نے ہمیں کس طرح سست رو بنا دیا۔‘

فیس بک کے انجینیئرنگ اور بنیادی ڈھانچے کے نائب صدر سنتوش جناردھن نے اپنی پوسٹ میں اس بارے میں وضاحت کی ہے کہ فیس بک چھ گھنٹے تک کیوں اور کیسے بند رہی اور اس بحال کرنے میں کمپنی کے انجینیئرز کو کن تکنیکی، جسمانی اور سکیورٹی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

جناردھن کے مطابق فیس بک کی بندش کی بنیادی وجہ دیکھ بھال کے معمول کے عمل کے دوران دی جانے والی غلط کمانڈ تھی۔

فیس بک کے انجینیئرز کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان ڈیٹا سنٹرز تک عملی رسائی حاصل کریں جن سے ’عالمی بیک بون نیٹ ورک‘ وجود میں آتا ہے اور غلط کمانڈ کی وجہ سے ہونے والی غلطی کو درست کرنے میں پیش آنے والی رکاوٹیں دور کریں۔

تاہم ایک بار غلطی ٹھیک ہو جانے کے بعد ایک اور مشکل جس کا انجینیئرز کو سامنا کرنا پڑا وہ ’ٹریفک میں اضافے‘ کو سنبھالنےکی شکل میں تھی جو خرابی دور کرنے کے دوران پیدا ہوتی ہے۔

جناردھن نے اپنی پوسٹ میں وضاحت کی ہے کہ کس طرح ’ہماری عالمی بیک بون نیٹ ورک گنجائش کو سنبھالنے والے نظام‘نے خرابی پیدا کی۔‘

پوسٹ کے مطابق: ’بیک بون وہ نیٹ ورک ہے جو فیس بک نے اپنی تمام کمپیوٹر تنصیبات کو آپس میں جوڑنے کے لیے قائم کر رکھا ہے۔ یہ نیٹ ورک ہزاروں میل طویل فائبر آپٹک تاروں پر مشتمل ہے جو دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور ہمارے تمام ڈیٹا سنٹرز کو آپس میں ملاتا ہے۔‘

فیس بک صارفین کی تمام تر درخواستیں جن میں خبریں اپ لوڈ کرنا یا پیغامات تک رسائی شامل ہے، اسی نیٹ ورک کے ذریعے نمٹائی جاتی ہیں جو چھوٹے ڈیٹا سنٹرز کی کی درخواستوں کو دیکھتا ہے۔ ان ڈیٹا سنٹرز کے مؤثر انتظام کے لیے انجینیئرز روزانہ کی بنیاد پر بنیادی ڈھانچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں جس میں ’بیک بون‘ کے ایک حصے کو آف لائن کرنا، صلاحیت میں اضافہ یا ان راؤٹرز کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنا شامل ہے جو تمام ڈیٹا ٹریفک سنبھالتے ہیں۔

جناردھن کے بقول: یہی کل کی بندش کی وجہ تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دیکھ بھال کے ان کے معمول کے کاموں کے دوران عالمی بیک بون گنجائش کی دستیابی کا جائزہ لینے کے ارادے سے ایک کمانڈ دی گئی جس نے غیرارادی طور پر ہمارے بیک بون نیٹ ورک کے تمام رابطے منقطع کر دیے اور فیس بک کا عالمی سطح پر دیٹا سنٹرز کے ساتھ  رابطہ مؤثر انداز میں کٹ گیا۔‘

جناردھن کی پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس بات سے معاملات پیچیدہ ہوئے وہ یہ تھی کہ غلطی سے دی جانے والی کمانڈ جس سے فیس بک بند ہوئی اس کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ کمپنی کے تجزیے کے نظام میں پائی جانے والی خامی نے غلط کمانڈ کو روکنے کے لیے اس نظام کے راستے میں رکاوٹ پیدا کی۔

 اس کے بعد فیس بک کے ڈیٹا سنٹرز اور انٹرنیٹ کے درمیان’رابطہ مکمل طور پر کٹ گیا۔ ‘یہ ایسا امر ہے جو’ دوسرے مسئلے کا سبب بنا جس نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا۔‘

فیس بک کے پورے ’بیک بون‘ نے کام کرنا بند کر دیا جس سے ڈیٹا سنٹرز کے مقامات نے خود کو ’غیر صحت مند‘ قرار دے دیا۔

پوسٹ کے مطابق ’حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ڈی این ایس سروز (ڈومین نیم سسٹمز) تک رسائی ناممکن ہو گئی حالانکہ وہ اب بھی کام کر رہے تھے۔‘

ڈومین نیم سسٹمز (ڈی این ایس) وہ نظام ہیں جن کے ذریعے وہ ویب پیجز جن کا نام صارفین ٹائپ کرتے ہیں، انہیں اس انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) میں تبدیل کرتے ہیں جنہیں کمپیوٹر سمجھ سکتے ہیں۔ ’اس صورت حال نے باقی انٹرنیٹ کے لیے ہمارے سرورز کو تلاش کرنا ناممکن بنا دیا۔‘

جناردھن نے کہا کہ اس صورت حال سے دو چیلنجز سامنے آئے۔ پہلا یہ تھا کہ فیس بک کے انجینیئرز نیٹ ورک میں رکاوٹ کی وجہ سے معمول کے ذرائع سے ڈیٹا سنٹرز تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 دوسرا یہ کہ کمپنی کے انٹرنیٹ آلات جو وہ یہ مسائل حل کرنے میں عام طور پر استعمال کرتی ہے، وہ ’ٹوٹ‘ گئے۔

انجینیئرز کو مجبور کیا گیا کہ وہ موقعے پر جا کر ان ڈیٹا سنٹر کو دیکھیں جہاں انہیں ’مسئلے کو تلاش اور سسٹمز کو دوبارہ چلانا تھا۔‘

 تاہم اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ کام آسان ہے کیونکہ فیس بک کے ڈیٹا سنٹرز کو ٹھوس جسمانی اور دوسری سکیورٹی حاصل ہے۔ سکیورٹی کا یہ نظام ایسے تیار کیا جاتا ہے کہ ’اس میں داخل ہونا مشکل ہوتا ہے۔‘

جناردھن نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ کمپنی کے راؤٹرز اور ہارڈویئر کس طرح بنائے گئے ہیں  کہ عملی رسائی کے باوجود ان میں تبدیلی کرنا مشکل ہوتا ہے۔

 ان کے بقول: ’لہٰذا محفوط رسائی کے ان پروٹوکولز کو فعال کرنے کے لیے اضافی وقت صرف ہوا جو لوگوں کو موقعے پر پہنچانے اور انہیں سرورز پر کام کے بنانے کے لیے ضروری تھے۔ صرف تب جا کر ہم مسئلے کی تصدیق اور اپنے بیک بون کو واپس آن لائن لانے میں کامیاب ہوئے۔‘

اس کے بعد انجینیئرز کو ایک آخری مشکل کا سامنا کرنا پڑا جو یہ تھی کہ وہ آسانی سے دنیا بھر میں تمام صارفین تک رسائی بحال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ٹریفک میں اضافے کی وجہ سے سسٹم نے پھر سے کام چھوڑ دیا۔ ڈیٹا سینٹرز کی طرف سے توانائی کے استعمال میں بڑے پیمانے پر کمی کا مسئلہ حل کرنے سے ’برقی نظام سے لے کر میموریز تک سب کچھ خطرے میں پڑ سکتا تھا۔‘

پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ قبل ازیں کمپنی نے ’سٹورم ڈرلز‘ نامی مشق کی تھی جس کا مطلب ہے کہ انہیں علم ہے کہ سسٹم کو بتدریج اور حفاظت کے ساتھ واپس آن لائن کیسے لایا جاتا ہے۔

آخر میں جناردھن کا کہنا تھا کہ ’میرا ماننا ہے کہ اس طرح کا توازن قابل قدر ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سخت ترین سکیورٹی بمقابلہ اس قسم کے منفرد مسئلے کا سست رو حل جییسے یہ مسئلہ۔’

فیس بک کی بندش جس نے اس کی تمام خدمات بشمول وٹس ایپ اور انسٹاگرام کو متاثر کیا، اس کا نتیجہ چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ کو ہونے والے تقریباً سات ارب ڈالر کے ذاتی نقصان کی صورت میں نکلا۔ سٹاک مارکیٹ میں کمپنی کے شیئرز کی قیمت گر گئی۔ مارک زکربرگ نے فیس بک کی بندش پر صارفین کو ہونے والی پریشانی پر معذرت کی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی