چمن کے ہوٹلوں میں افغان شہریوں کا رش

اِن دنوں چمن کے ہوٹلوں میں سرحد بند ہونے کی وجہ سے پھنس جانے والے افغان شہریوں کا رش لگا ہوا ہے۔

بلوچستان کی افغانستان سے متصل سرحد کی بندش کی باعث اِن دنوں سرحدی شہر چمن کے ہوٹلوں میں افغان شہریوں کا رش لگا ہوا ہے، جو سرحد پار کرنے کے لیے آئے تھے، لیکن افغان طالبان کی طرف سے سرحد بند کیے جانے کے باعث پھنس گئے ہیں۔

انہی میں سے ایک ذبیح اللہ بھی ہیں، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ چمن سرحد پہنچے تھے، لیکن انہیں یہاں پر ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور سکیورٹی فورسز نے انہیں سرحد سے دور جانے کا کہہ دیا۔ 

ذبیح اللہ نے بتایا کہ وہ سرحد کے قریب میدانی علاقے میں اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ سرحد کھل جائے گی، جس کے بعد وہ افغانستان اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے، لیکن سرحد کی طرف جانے کی بجائے سکیورٹی فورسز نے ڈنڈے کے زور پر انہیں میدانی علاقے سے بھی باہر نکلنے کا کہہ دیا اور کہا کہ سرحد بند ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں نہیں معلوم ہے کہ سرحد کو کیوں بند کیا گیا ہے۔ نہ ہی کسی نے اس حوالے سے ہمیں بتایا۔ اس وقت میں تین دن سے یہاں پر ایک ہوٹل میں ہوں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’میری بیوی کا تعلق پاکستانی علاقے سے ہے، جس کی وجہ سے ہر چھ مہینے کے بعد مجھے پاکستان آنا پڑتا ہے۔ سابق صدر اشرف غنی  کے دور میں بھی سرحد پار کرتا تھا، لیکن اس وقت ہمیں اتنا تنگ نہیں کیا جاتا تھا جتنا اب کیا جاتا ہے۔‘

ذبیح اللہ نے افغانستان میں بنایا گیا اپنا شناخت نامہ بھی دکھایا کہ وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار نہیں کر رہے، بلکہ ان کے پاس دستاویزات موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’افغانستان جانے والے تمام لوگ مزدور ہیں یا ان کے رشتے دار افغانستان میں ہیں۔ ہمیں بہت تنگ کیا جاتا ہے۔ میں یہاں پر تین دن سے بیٹھا ہوں۔‘

سرحد کے قریب واقع اس ہوٹل اور اس جیسی دیگر جگہوں پر کئی افغان شہری موجود ہیں، جنہیں سرحد کی بندش کے باعث یہاں پر مجبوراً قیام کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان افغان سرحد کو چمن بارڈر کے مقام پر چار دن قبل افغان طالبان نے بند کردیا تھا، جس کے حوالے سے والی قندھار نے حکم جاری کیا تھا۔

تاہم پاکستانی حکام اس حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے سرحد کو بند نہیں کیا، افغانستان کی طرف سے لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

افغان شہریوں کے علاوہ چمن سرحد کے قریب اس ہوٹل کی پارکنگ میں بہت سے ٹرک کھڑے ہیں، جنہوں نے مختلف چیزیں لوڈ کر رکھی ہیں، جن میں پھل بھی شامل ہیں اور انہیں سرحد کی بندش کے باعث یہاں رکنا پڑا ہے۔

ایک ٹرک ڈرائیور عبدالمالک نے بتایا کہ وہ یہاں آئے تھے کہ سرحد پار کرکے یہ لوڈ افغانستان پہنچائیں گے، لیکن سرحد کی بندش کے باعث یہاں پھنس گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ٹرک پر کیلا لوڈ ہے، جو زیادہ دیر رکنے کے باعث خراب ہو رہا ہے اور دوسری جانب لوڈ کے باعث ہمارے ٹرکوں کے ٹائر برسٹ ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرحد کو جلد کھولا جائے تاکہ ہمارا پھل خراب ہونے سے بچ جائے۔ 

عبدالمالک کے بقول: ’اگر یہ مال یہاں خراب ہوجاتا ہے، جو اس وقت بھی کالا ہو رہا ہے، تو پھر ہمیں کرایہ نہیں ملے گا۔ ہم یہاں پر کھڑے ہیں، ہمارا روزانہ کا خرچہ ہو رہا ہے۔‘

مالک نے مزید بتایا کہ ان کی بہت سی گاڑیاں سرحد کے اس پار بھی کھڑی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ہمیں سرحد کو پار کرنے اور بعض ٹیکسوں کے باعث بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ’طالبان بھی روزانہ ٹیکس میں اضافہ کر رہے ہیں، یہاں بھی ہم سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔‘

مالک کے مطابق: ’یہ روزانہ کا مسئلہ ہے۔ حکومت اسے ختم کرکے تجارت میں رکاوٹ ختم کرے۔ چاردن میں میرا دس ہزار روپے کا خرچہ ہوا ہے۔ گاڑی اور ٹائروں کا نقصان الگ ہے۔‘

اسی جگہ پر موجود ایک دوسرے ڈرائیور محمود خان نے بتایا کہ یہاں بہت سے ڈرائیور پھنسے ہوئے ہیں، جن کی بات کوئی بھی نہیں سن رہا۔

محمود کا کہنا تھا کہ یہ ٹرک انہوں نے قسطوں پر لیا ہوا ہے، جس کے باعث ان کی قسطوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ’اگر کام نہیں ہوگا تو قسط کہاں سےجمع کروائیں گے۔‘

بقول محمود: ’ہمارے پاس کوئی بھی نہیں آیا کہ معاملہ کس طرح حل ہوگا، نہ ہی کسی نے ہمارے مسائل کے حوالے سے پوچھا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس جگہ پر 50 سے 60 گاڑیاں کھڑی ہیں، جن پر کیلا لوڈ ہے اور جو زیادہ کھڑے رہنےکے باعث خراب ہو رہا ہے۔ اگر ہم مزید یہاں کھڑے رہے تو یہ کسی کام کے نہیں رہیں گے۔‘

محمود نے بتایا کہ ایک گاڑی کی قیمت 50 سے 60 لاکھ روپےہے۔’گاڑی کے ساتھ مالک کا اور مال والے کا بھی نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہم کیا کریں، کہاں جائیں۔‘

چمن سرحد کے قریب بیٹھے افغان شہریوں اور ان ٹرک ڈرائیوروں کا مطالبہ ہے کہ سرحد کو کھولنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ مزید نقصان سے بچ سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان