آذربائیجان: ایران اور اسرائیل کے درمیان خفیہ جنگ کا نیا محاذ

ایرانی بیانات اسرائیل اور آذربائیجان کے تعلقات کے خلاف عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں اور تہران مانتا ہے کہ یہ خطے میں اسے گھیرنے کا طریقہ ہے تاکہ اس پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

یکم اکتوبر کو ایران کی آذربائیجان کے ساتھ سرحد پر فوجی مشقیں۔ ایران کو آذربائیجان اور اسرئیل کے اچھے تعلقات پر تشویش ہے (فوٹو: اے ایف پی، ایرانی فوج، ہینڈ آؤٹ)

تقریباً ایک سال قبل آذربائیجان کا نام خبروں میں سرفہرست تھا، جس کی بنیادی وجہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ تھی۔ مشرق وسطیٰ میں اس معاملے میں دلچسپی اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ آمنے سامنے موجود فریق ایسے دو ممالک کے اتحادی تھے جو خطے میں اپنی بالادستی مسلط کرنے کے خواہاں ہیں، یعنی ترکی اور ایران۔

ایک سال قبل آذربائیجان، جو ترکی کا اتحادی ہے، نے ناگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے پر آرمینیا سے جنگ لڑی۔ 1990 میں ناگورنو کاراباخ پر قبضے کے بعد سے یہ آرمینیا کے کنٹرول میں تھا۔ آرمینیا کے نقطہ نظر سے یہ آرمینیائی باشندوں کا ایک تاریخی علاقہ تھا، جسے سابقہ سوویت یونین نے 20 ویں صدی میں آذربائیجان سے آزاد کیا۔

لہذا، آذربائیجان جنوبی قفقاز کے علاقے میں ترکی اور ایران کے مابین مسابقت میں ایک اہم ملک ہے اور آج ان علاقوں میں شمار کیا جاسکتا ہے جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان خفیہ جنگ میں بڑھاوا ہو سکتا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ تہران کو آذربائیجان میں اسرائیلی فوج کی موجودگی کے بارے میں ’شدید تشویش‘ ہے، وہ  اس کی اجازت نہیں دے گا اور قفقاز میں اسرائیل کی سرگرمیوں کے خلاف ضروری اقدامات کرے گا۔

تہران کہہ چکا ہے کہ وہ ’جغرافیائی سیاسی تبدیلی کو برداشت نہیں کرے گا‘، جبکہ کچھ عرصہ قبل آیت اللہ علی خامنہ ای بھی ایران کے تمام پڑوسیوں کو ’خطے میں غیر ملکیوں کی مداخلت‘ کے بارے میں خبردار کر چکے ہیں۔

ایرانی بیانات اسرائیل اور آذربائیجان کے تعلقات کے خلاف عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں اور تہران مانتا ہے کہ یہ خطے میں اسے گھیرنے کا طریقہ ہے تاکہ اس پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

آذربائیجان ایران کی شمالی سرحد پر جنوبی قفقاز کے علاقے میں واقع ہے اور ایران میں آذری اقلیت تقریباً دو کروڑ ہے۔ آذربائیجان پہلے ایران کا حصہ تھا مگر 19ویں صدی میں روس کے ہاتھوں وہ اسے ہار گیا۔

اسرائیل کے آذربائیجان کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، جو آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ کے دوران فوجی تعاون پر مرکوز تھے، کیونکہ اسرائیل نے آذربائیجان کو بڑے ہتھیار فراہم کیے تھے۔ گذشتہ سال متنازع ناگورنو کاراباخ کے علاقے پر کنٹرول کے لیے آرمینیا کے ساتھ چھ ہفتوں کی جنگ میں آذربائیجان نے میدان جنگ میں اسرائیلی جاسوسی ڈرون استعمال کیے تھے جبکہ باکو اسرائیلی ایرو تھری میزائل دفاعی نظام خریدنے پر بھی غور کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایرانی رہنما اور وزیر خارجہ کے بیانات ستمبر کے وسط میں تہران اور باکو کے درمیان کشیدگی میں حالیہ اضافے کی روشنی میں سامنے آئے ہیں، جب آذربائیجان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر ترکی اور پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ تہران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے آذربائیجان کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجی مشقیں کیں۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘ نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ آذربائیجان نے دارالحکومت باکو میں ایک مسجد بند کر دی جو ایرانی رہنما سے منسلک تھی، جبکہ آرمینیا کو ایندھن فراہم کرنے والے ایرانی ٹرکوں کا گزرنا بھی بند کر دیا۔ تہران نے جواب میں آذربائیجانی فوجی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں اور آذربائیجان نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں ایک ایرانی سیل اسرائیلی مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔

یہ کشیدگی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح باکو تہران کے لیے خطرے کے ذرائع میں سے ایک ہے۔ ایرانی قومی سلامتی کا مسئلہ یہ ہے کہ جو ممالک اس کی سرحدوں پر واقع ہیں وہ ایران میں موجود نسلی اور اقلیتوں کی توسیع ہیں اور وہ ان سرحدوں کے قریب ہی رہتے ہیں، جو ایرانی سرحدوں کو اندرونی عدم استحکام کا باعث بناتا ہے۔

ایران کو آذربائیجان کے اسرائیل اور ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات پر تشویش ہے۔ اسرائیل آذربائیجانی تیل خریدتا ہے اور آذربائیجان اسرائیلی ہتھیار۔ ترکی اور اسرائیل دونوں نے آرمینیا کے خلاف آذربائیجان کی فوجی مہم کی حمایت کی ہے جبکہ ایران خطے میں ترکی-اسرائیل-آذری اثر و رسوخ کے جواب کے طور پر آرمینیا کی طرف مائل ہے۔ دوسری طرف، تعلقات اس حقیقت سے پیچیدہ بنتے ہیں کہ نسلی آذربائیجانی ایران کی 8.3 کروڑ آبادی کا 25 فیصد بنتے ہیں۔

اگرچہ آذربائیجان کے ترکی اور اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں، ترکی اور ایران کے مشترکہ مفادات دوسرے شعبوں میں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ، افغانستان اور اقتصادی تعلقات میں بھی ہیں اور ایران ترکی کے ساتھ کسی قسم کے اختلاف کو بڑھاوا نہیں دے گا۔

تاہم، ایران کے لیے اب اصل تشویش اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں، جو ڈرون ٹیکنالوجی کو آذربائیجان منتقل کرتا ہے۔ عراق میں ایران نواز ملیشیا نے باکو پر الزام لگایا ہے کہ وہ عراق میں ملیشیاؤں پر ڈرون حملوں اور پائلٹ کے بغیر اسرائیلی طیاروں کا اڈہ ہے۔

آذربائیجان اور اسرائیل کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آذربائیجان مشرق وسطیٰ میں اسی ایرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو اس کے لیے خطرہ بن سکے۔ لہذا، ایران تل ابیب اور باکو کے درمیان تعلقات کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، خاص طور پر آذری سرزمین پر اسرائیل کی موجودگی۔ اس میں یہ بات اہم ہے کہ ایران  کو سکیورٹی اور انٹیلی جنس کی خلاف ورزی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں اس کی جوہری معلومات کی چوری اور ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران میں ایک حلقہ مانتا ہے کہ اسرائیلی ایجنٹوں نے آذری سرزمین سے داخلے کا فائدہ اٹھایا۔

دوسری جانب ایران کو خدشہ ہے کہ اسرائیل ایران کے اندر آذری اقلیت کو متاثر کرے گا اور عدم استحکام پیدا کرے گا۔ نسلی آذربائیجانی قوم پرستی اور سماجی و اقتصادی حالات پر موجودہ غصے کے ساتھ ساتھ ایران کے شمالی صوبوں میں دھماکہ خیز صورت حال پیدا ہوسکتی ہے، جو تقریباً دو کروڑ ایرانی آذربائیجانیوں کے گھر ہیں۔

یقینی بات یہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان خفیہ جنگ نئے علاقوں میں پھیل رہی ہے۔ یہ حکمت عملی نئی نہیں ہے۔ ایران پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں اس کی پیروی کر رہا ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے حریفوں اور مخالفین کو گھیرے میں لے کر قدم جمانے کی تلاش میں رہتا ہے۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں

یہ مضمون پہلے انڈپینڈنٹ عربیہ میں شائع ہوا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ