‎گوادر بندرگاہ نامکمل اور نئے کوریڈورکا افتتاح

آج کل سرکار سے جب سی پیک پر بات کی جاتی ہے تو وہ اس کے ساتھ اسلام آباد، تہران، استنبول روڈ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا ذکر کرتی دکھائی دیتی ہے مگر اس منصوبے کو زمینی حقائق کی بنیاد پر پرکھا جائے تو حالات مختلف دکھائی دیتے ہیں۔

اپریل 2016 کی تصویر میں گوادر بندرگاہ ۔ چین سے اس بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ کیا گیا تھا تاہم تاجروں کا کہنا ہے کہ اب بھی یہاں جدید سہولیات میسر نہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

‎عمر صفدر کو دو کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ عمر کیا کرتے ہیں اور وہ کن حالات سے دو چار ہیں یہ میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا۔ فی الحال آپ یہ جان لیں کہ سی پیک منصوبے کو شروع ہوئے تقریباً سات سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور ابھی تک گوادر بندرگاہ سے مطلوبہ تجارتی فوائد حاصل نہیں کیے جا سکے اور حکومت پاکستان کی جانب سے چینی حکام سے اس کی وجوہات بارے استفسار نہیں کیا جا رہا۔

اس کی تعمیر کا معاہدہ چین کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چالیس سال تک آمدن کا 91 فیصد چین کی ملکیت ہے اور پاکستان صرف نو فیصد کا حصہ دار ہے۔ گوادر بندرگاہ کی آمدن بڑھانے کے لیے حکومت پاکستان تاجروں سے درخواست کر رہی ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے لیے گوادر بندرگاہ استعمال کریں۔ انہیں بندرگاہ پر سامان رکھنے کے لیے تین ماہ کے لیے مفت گودام بھی دیے جائیں گے۔ بندرگاہ اور مخصوص گزرگاہوں پر کنٹینرز کو سکیورٹی بھی دی جائے گی۔ ٹیکس چارجز بھی کم کیے جائیں گے۔ لیکن تاجر برادری ماننے کو تیار نہیں، کیونکہ وہ بھی عمر کی طرح کروڑوں روپوں کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔

مزید لکھنے سے پہلے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ عمر صفدر گجرات کے ایک تاجر ہیں جو 30 سال سے درآمدات، برآمدات، مینوفکچرنگ اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔

‎حکومتی پرکشش آفرز کے پیش نظر عمر نے گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور تین مرتبہ تجارت کے لیے گوادر بندرگاہ استعمال کر چکے ہیں، جو کہ نقصان دہ ثابت ہوئی۔ گوادر فری زون میں جو زمین خریدی تھی اس کے بارے میں بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) نے رپورٹ جاری کی ہے کہ یہ زمین ہیوی مشینری کے استعمال اور بڑی انڈسٹری کے قیام کے لیے موزوں نہیں ہے۔

عمر کا کہنا ہے کہ گوادر کا موازنہ دبئی اور سنگاپور سے کیا جاتا ہے لیکن اس میں جدید بندرگاہوں والی کئی سہولتیں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ سڑکوں کا نظام بوسیدہ ہے۔ بجلی اور گیس کے شدید مسائل ہیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں۔ انفراسٹرکچر ابھی تک قائم نہیں ہو سکا۔ سکیورٹی ایک مسئلہ ہے اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کسی وجہ سے کنٹینر پھنس جائے تو اسے کلیر کروانے کے لیے گوادر جانا پڑتا ہے جہاں رہائش کے لیے ایک بھی مناسب ہوٹل نہیں ہے۔ جسے حکومت پانچ ستارہ ہوٹل کہتی ہے اسے کسی بھی زاویے سے پانچ ستارہ ہوٹل نہیں کہا جا سکتا۔ چئیرمین گوادر پورٹ نصیر خان کاشانی میڈیا پر ان کمزوریوں کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق 9200ہیکٹر میں سے  صرف24ہیکٹر آپریشنل ہے۔ ان حالات میں کاروباری حضرات مزید سرمایہ گوادر منتقل نہیں کر سکتے۔ 

‎عمر صفدر کے خدشات درست دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سی پیک کا دارومدار گوادر بندرگاہ پر ہے، جسے سب سے پہلے جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جانا چاہیے تھا لیکن چین سی پیک کے دیگر منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ سڑکیں اور بجلی کے منصوبے مکمل کیے جا رہے ہیں لیکن گوادر بندرگاہ پر مطلوبہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ کیا ایسا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے یا یہ غفلت کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومت اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضع کرنے سے گریزاں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پر سی پیک کے اہم منصوبوں کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام تو لگتا رہتا ہے۔ کاروباری طبقوں کو درپیش مسائل سے ان الزامات کو تقویت ملی ہے، جو کہ سی پیک کے لیے نقصان دہ ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‎آج کل سرکار سے جب چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) پر بات کی جاتی ہے تو وہ اس کے ساتھ اسلام آباد، تہران، استنبول روڈ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا ذکر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ 5300 کلو میٹر زمینی راستہ ہے جو پاکستان سے ترکی تجارت کے لیے استعمال ہوگا۔ اس کی بنیاد 2011 میں ترکمانستان میں منعقد ہونے والے 8ویں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) کے اجلاس میں رکھی گئی تھی۔ 27 ستمبر 2021 کو نیشنل لوجسٹک کمپنی(این ایل سی) کے ٹرک کراچی سے پہلا تجارتی سامان لے کر روانہ ہوئے اور بذریعہ ایران سات اکتوبر کو استنبول پہنچے۔ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ یہ منصوبہ سی پیک منصوبے کی ایکسٹنشن ہے۔ چین سے مال پاکستان آئے گا، یہاں سے بذریعہ سڑک ترکی جائے گا اور وہاں سے یورپ بھیجا جا سکے گا۔ اسے نہر سویز کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 

‎اسلام آباد، تہران استنبول کوریڈور کو اگر زمینی حقائق کی بنیاد پر پرکھا جائے تو حالات مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ اس منصوبے کے ذریعے تجارت کو ممکن بنانے کے لیے ایران کی سرزمین کو استعمال کیا جائے گا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان حالات اکثر کشیدہ رہتے ہیں۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات کے پیش نظر ایران اور ترکی کے اختلافات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ آپسی اختلافات کے باعث ایران راستہ دینے سے انکار کر سکتا ہے جس سے اس منصوبے کے ناکام ہونے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ اگر کسی صورت میں اس راستے سے تجارت ممکن ہو سکے تو اس کا اصل فائدہ ممکنہ طور پر پاکستان کی بجائے ترکی اور چین کو ہو سکتا ہے۔ ترکی اور چین صنعتی پیداوار میں خودمختار ہیں جبکہ پاکستان کا انحصار درآمدات پر ہے جس کے باعث یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نیا راستہ مہیا ہونے سے بھی ممکنہ طور پر مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ لیکن ترکی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں بڑا شراکت دار بن کر سامنے آ سکتا ہے۔

‎اس کے علاوہ یہ نہر سویز کا متبادل ہوتا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ نہر سویز ایشیا کو یورپ سے جوڑنے کا ایک نسبتاً سستا بحری راستہ ہے۔ جہاں سے لاکھوں ٹن سامان ایک دن میں تجارت کیا جاتا ہے۔ جبکہ زمینی راستے سے اتنی بڑی تعداد میں ترسیل تقریباً ناممکن ہے۔ نہر سویز کا متبادل کوئی نیا بحری راستہ ہو سکتا ہے۔ ایشیا سے یورپ جانے کے لیے ایک راستہ ریڈ سی سے گلف آف سویز میں داخل ہوتا ہے اور دوسرا گلف آف اوکابا میں داخل ہوتا ہے جو ایشیا کو اسرائیل کے راستے یورپ سے ملاتا ہے۔ یہ فاصلہ نہر سویز کی نسبت کم ہے۔ اسرائیل نے زمینی راستے کو کھود کر نہر سویز کی طرز پر نہر بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ مارچ 2021 میں جب نہر سویز بند ہوئی تھی تو اسرائیلی نئے راستے کو بہترین متبادل قرار دیا گیا تھا، لیکن یہ ابھی تک نامکمل ہے۔

‎ان حالات کے پیش نظر اسلام آباد، تہران اور استنبول کوریڈور سے زیادہ امیدیں لگانا عبث ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جس طرح گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے حوالے سے بڑے دعوے کر کے سرمایہ کاروں کے کھربوں روپے لگوا دیے گئے شاید اسی طرح نئے کوریڈور کے خواب دکھا کر سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جارہا لیکن اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ بیوروکریسی کی نااہلی کا خمیازہ کاروباری طبقے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ گوادر بندرگاہ والے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ ملک کے بڑے درآمدکندگان اور برآمدکندگان سے ان کے مسائل اور حل پر تجاویز طلب کرے اور ان کی روشنی میں سی پیک، گوادر اور اسلام آباد، تہران، استنبول کوریڈور سے متعلق پالیسی بنائے، تاکہ پاکستانی معیشیت پر مثبت اثرات مرتب ہوں، تاجر مطمئن رہیں اور تجارت ترقی کر سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ