کشمیر میں طویل جھڑپ: بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان کیوں اٹھانا پڑا؟

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں گذشتہ کئی روز سے بھارتی فوج اور مشتبہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جس میں اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

پونچھ میں طول پکڑنے والی مسلح جھڑپ پر بریفنگ کے لیے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند ناروانے نے کشمیر کا دورہ کیا ہے (تصاویر: ناظم علی خان، پونچھ)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں گذشتہ کئی روز سے بھارتی فوج اور مشتبہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔

پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد یا لائن آف کنٹرول پر مینڈھر کے جنگلات میں جاری اس طویل جھڑپ میں اب تک بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس کے دو افسران سمیت نو فوجی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔

دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ پونچھ میں جاری جھڑپ کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے بعد یہاں ہونے والی سب سے طویل اور بھارتی فوج کے لیے ہلاکت خیز جھڑپ ثابت ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں فوجیوں، درجنوں کمانڈوز، کئی ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز کو استعمال میں لانے کے باوجود بھارتی فوج اب تک کسی بھی عسکریت پسند کو مارنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔

بھارتی میڈیا کی مختلف رپورٹوں میں عسکریت پسندوں کی تعداد پانچ سے دس بتائی گئی ہے اور ان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عسکریت پسند بھاری ہتھیاروں سے مسلح اور اعلیٰ تربیت یافتہ معلوم ہوتے ہیں۔

ان رپورٹوں میں لکھا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کا یہ گروپ بظاہر حال ہی میں مبینہ طور پر پاکستان سے سرحد کے اس پار داخل ہونے میں کامیاب ہوا ہے۔

این ڈی ٹی وی نے اپنی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ پونچھ کے جنگلات میں موجود عسکریت پسندوں کو مبینہ طور پر پاکستانی کمانڈوز نے تربیت دی ہے۔

’دہشت گردوں کا یہ گروپ نہ صرف بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان سے پہنچا رہا ہے بلکہ ہزاروں فوجیوں کو چکمہ دے کر بہ آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو پاکستانی ملٹری یا کمانڈوز نے تربیت دی ہے۔‘

تاہم بھارت کے دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک قیاس آرائی ہے اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق کسی عسکریت پسند کے مارے جانے کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔

اسلام آبا د میں انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کے مطابق پاکستانی حکام نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

 پاکستانی حکام نے پونچھ کے حوالے سے کہا ہے کہ ’اس صورتحال کا ہم کارگل سے موازنہ نہیں کر سکتے کیونکہ کارگل میں دونوں جانب کی افواج آمنے سامنے تھیں جبکہ وہاں (پونچھ) لڑائی کشمیری آزادی پسندوں اور بھارتی افواج کے مابین ہو رہی ہے۔‘

تاہم پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اطلاعات یہی ہیں کہ پونچھ میں کشمیری فائیٹرز اور بھارتی افواج کے مابین ستمبر کے دوسرے ہفتے سے سخت کشیدگی جاری ہے۔

انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پونچھ ڈسٹرکٹ کے مختلف علاقوں میں بھارتی فوج کے 20 کے قریب اہلکار مارے جا چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پونچھ میں حالات سنجیدہ ہیں اور کشمیری آزادی پسندوں اور بھارتی فوج کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔ آزادی پسندوں کی تنظیم جو لڑائی میں پیش پیش ہے اسے پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ کے نام دیا جا رہا ہے۔‘

 اس کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے صحافی جلال الدین مغل نے بتایا ہے کہ وہاں (پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) بھی صورتحال غیرمعمولی دکھا دے رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ شیر خان اور نکیال سیکٹر جو پونچھ کے بالکل دوسری جانب ہے کے رہائشیوں نے بھی غیر معمولی حالات کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب پونچھ میں مسلح جھڑپ کے مقام پر موجود ایک صحافی نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ طرفین کے درمیان جھڑپ 11 اکتوبر کو ڈیرہ کی گلی علاقے میں شروع ہوئی اور گولہ باری کے ابتدائی تبادلے میں ایک جونیئر کمیشنڈ افسر (جے سی او) سمیت پانچ بھارتی فوجی مارے گئے۔

’پھر 14 اکتوبر کو بمبر گلی علاقے میں طرفین کے درمیان آمنا سامنا ہوا اور گولیوں کے تبادلے میں ایک جے سی او سمیت مزید چار فوجی ہلاک مارے گئے۔‘

مذکورہ صحافی نے بتایا کہ جس جگہ پر یہ جھڑپیں ہو رہی ہیں وہ پانچ سے چھ کلو میٹر پر پھیلا ایک گھنا جنگل ہے۔‘

’اس پورے علاقے کو بھارتی فوج نے چاروں اطراف سے سیل کر رکھا ہے۔ اندر کیا ہو رہا ہے ہمیں بھی معلوم نہیں۔ کوئی بھی سکیورٹی افسر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سب خاموش ہیں، ہم دور سے ہی ڈرونز اور ہیلی کاپٹروں کو فضا میں اڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں مارٹر گولوں اور ہلکے ہتھیاروں سے کی جانے والی فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمیں اپنے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عسکریت پسندوں کا یہ گروپ اعلیٰ تربیت یافتہ ہے۔ فون اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے متعلق پھیلائی جانے والی افواہیں غلط ہیں۔ تاہم پونچھ کو جموں سے جوڑنے والی شاہراہ کو بند رکھا گیا ہے۔‘

بھارت کے مختلف میڈیا اداروں کے لیے بحیثیت فری لانسر کام کرنے والے مذکورہ صحافی نے مزید بتایا کہ اس طویل جھڑپ کی تحقیقات کے سلسلے میں کئی مقامی افراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔

’جموں و کشمیر پولیس نے عسکریت پسندوں کے اس گروپ کو کھانا وغیر فراہم کرنے کے شبہے میں کم از کم آدھے درجن افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں ایک ماں اور بیٹا بھی شامل ہیں۔‘

جموں میں تعینات بھارتی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل دیویندر آنند نے بتایا کہ ’جہاں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن چل رہا ہے وہ ایک گھنا جنگل ہے۔ ہمارے فوجی جوان دہشت گردوں کو تلاش کرنے کے دوران مارے گئے ہیں۔‘

’دہشت گردوں کو مارنے کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ کارروائیاں ان کی ہلاکت تک جاری رہیں گی۔‘

بھارتی فوجی سربراہ کا دورہ

پونچھ میں طول پکڑنے والی مسلح جھڑپ پر بریفنگ کے لیے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند ناروانے نے کشمیر کا دورہ کیا ہے۔

بھارتی فوج کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر فوجی سربراہ کے دورے کی تصدیق کی گئی ہے تاہم پونچھ جھڑپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔

’چیف آف آرمی سٹاف جنرل ایم ایم ناروانے نے وائٹ نائٹ کورپس کے فارورڈ علاقوں کا دورہ کیا اور لائن آف کنٹرول پر صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ کمانڈروں نے جنرل ناروانے کو زمینی صورتحال نیز جاری انسداد دراندازی کی کارروائیوں کے متعلق بریفنگ دی ہے۔‘

ذرائع نے بتایا کہ بھارتی فوجی سربراہ نے بمبر گلی سیکٹر کا بھی دور کیا اور وہاں جاری طویل مسلح جھڑپ سے متعلق فوجی افسروں سے بریفنگ حاصل کی ہے۔

بھارتی فوجی سربراہ نے رواں برس تین جون کو سری نگر میں کہا تھا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد اور بھارتی حدود میں عسکریت پسندوں کو بھیجنے کے سلسلے کو بند کرنے کے عمل سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔

تاہم ان کا تب ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے ’دہشت گردانہ سرگرمیاں‘ جاری رکھی ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ’ہم کسی بھی صورت میں اپنی تیاریوں کو کم نہیں کر سکتے ہیں۔‘

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ رواں سال 25 فروری کو بھارت اور پاکستان نے ایل او سی سے متعلق سنہ 2003 کے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس تجدید عہد کے بعد نہ صرف سرحد پر خاموشی چھائی ہوئی تھی بلکہ بھارتی سکیورٹی عہدیداروں کے مطابق دراندازی کے واقعات میں بھی غیر معمولی کمی آئی تھی۔

لوگ گھروں میں بند

پونچھ میں منگل کو پولیس نے مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے اعلان کرایا کہ مقامی لوگ تا حکم ثانی اپنے گھروں میں ہی بند رہیں گے۔

مساجد سے کیے جانے والے اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’تمام حضرات سے گذارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں بند ہو جائیں۔ اگر کوئی کھیت پر گھاس کاٹنے گیا ہے تو وہ بھی فوراً واپس آکر گھر میں بند ہو جائے۔‘

کشمیر پولیس کا دعویٰ ہے کہ مقامی لوگوں سے گھروں میں بند ہو جانے کی اپیل انہیں کسی بھی جانی نقصان سے بچانے کے لیے کی گئی ہے۔

تاہم دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اعلان کا مقصد مقامی لوگوں کو گھروں میں بند کر کے جنگل میں ’چھپے بیٹھے‘ عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرنا ہو سکتا ہے۔

’کشمیریوں کی خواہشات کو پورا کرو‘

پونچھ میں 11 اکتوبر کو مارے جانے والے پانچ میں سے ایک فوجی اہلکار گجن سنگھ کی اہلیہ ہرپریت کور کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے۔

وہ اس ویڈیو میں حکومت سے کشمیریوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں حکومت سے اپیل کرتی ہوں اگر وہ (کشمیری لوگ) بھارت سے علیحدگی چاہتے ہیں تو ان کی خواہشات کو پورا کریں۔‘

بھارتی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والی ہرپریت کور کا سوالیہ انداز میں کہنا تھا کہ حکومت دوسروں کے بیٹوں کو کیوں مروا رہی ہے۔

’حکومت دوسروں کے بیٹوں کو کیوں مروا رہی ہے، یہ لوگ خود اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں انہیں دوسروں کے بیٹوں کی زندگیوں کا کوئی خیال نہیں ہے، یہ بیٹے لگاتار قربان ہو رہے ہیں لیکن تم لوگوں کو کوئی پراہ ہی نہیں ہے۔ مجھے اپنے شوہر کی قربانی پر فخر ہے۔‘

ہلاکتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ

دریں اثنا وادی کشمیر کے میدانی علاقوں میں نامعلوم اسلحہ برداروں کے ہاتھوں عام شہریوں بالخصوص بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے۔

رواں ماہ کے دوران اب تک نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں 12 عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اقلیتی فرقے سے وابستہ دو اساتذہ، ایک مشہور دوا فروش اور پانچ غیر مقامی مزدور شامل ہیں۔

مہلوکین میں پرویز احمد نامی ایک مقامی مزدور بھی شامل ہے جس کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں نیم فوجی سی آر پی ایف اہلکاروں نے اس وقت گولیاں برسا کر ابدی نیند سلا دیا جب ایک گاڑی جس میں وہ سوار تھا، سکیورٹی فورسز کے ناکے پر نہیں رکی۔

اس دوران کشمیر میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران مختلف مقامات پر رونما ہونے والی نو مسلح جھڑپوں کے دوران 13 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ مہلوک عسکریت پسندوں میں سے بیشتر دیگر جرائم کے علاوہ ان شہری ہلاکتوں میں ملوث تھے۔

نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکتوں سے وادی میں خاص طور پر یہاں مقیم غیر مقامی کاری گروں اور مزدروں میں خوف و دہشت پھیل گئی ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے وادی سے راہ فرار اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا