سری نگر میں اضافی فورسز تعینات، شہریوں کی تلاشی اور بائیکیں ضبط

سری نگر کے مرکزی علاقے لال چوک میں خواتین نیم فوجی دستوں کو خواتین اور ان کے بیگز کی تلاشی لیتے دیکھا گیا، جو کئی سالوں کے بعد پہلی بار ہوا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے رہائشیوں میں جمعے کو اس وقت خوف و ہراس پھیل گیا جب شہر بھر کے مختلف مقامات پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی گئی جو لوگوں کو روک کر تلاشی لینے کے ساتھ شہریوں کی موٹر سائیکلوں کو بھی قبضے میں لینے لگیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل رہی جس سے مکینوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا خصوصاً ان طلبہ کو جو آن لائن پڑھائی کر رہے ہیں۔

کشمیر پولیس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’کچھ بائیکس پکڑنا اور کچھ ٹاورز کا انٹرنیٹ بند کردینے کا تعلق تشدد اور عسکریت پسندی (کو روکنے سے) ہے، اور اس کا آئی جی پی پولیس کے دورے سے کوئی تعلق نہیں۔‘

عام شہریوں کی جامع تلاشی میں اضافہ غیر مقامی مزدوروں سمیت عام شہریوں کے قتل کے بعد ہوا ہے۔ رواں ماہ کے دوران اب تک عام شہریوں، عسکریت پسندوں اور بھارتی فورسز کے اہلکاروں سمیت 30 سے ​​زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دارالحکومت کے مرکزی علاقے لال چوک میں خواتین نیم فوجی دستوں کو خواتین اور ان کے بیگز کی تلاشی لیتے دیکھا گیا، جبکہ بہت سے شہریوں نے سوشل میڈیا پر خواتین اہلکاروں کی تلاشی لیتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کیں۔

کچھ کشمیری شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ برسوں کے بعد پہلی بار ہوا ہے جب وہ خواتین فوجیوں کے ذریعے عوامی سطح پر خواتین کی تلاشی دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

انٹرنیٹ کی بندش سے پریشان سری نگر کے علاقے چتبل کی رہائشی صبا نے بتایا: ’ہم نہیں جانتے کہ انٹرنیٹ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یہ صبح بحال ہوجاتا ہے اور دوپہر کو معطل ہو جاتا ہے، میرے بچے آن لائن کلاسز لیتے ہیں جو وہ نہیں لے پا رہے۔‘

پرانے سری نگر میں ایک نوجوان کاروباری شخصیت اور ڈیلیوری کمپنی کے مالک سمیع اللہ اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’موٹر سائیکلوں کے ضبط کیے جانے کی وجہ سے ہمارے ڈیلیوری بوائز کو مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث ہمیں یہ سہولت بند کرنی پڑی ہے۔ شہر میں اتنے چیک پوائنٹس ہیں کہ ہمارے لڑکے پارسل پہنچانے کے لیے لوگوں تک اور کئی مقامات تک نہیں پہنچ پاتے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں کاروبار کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سمیع اللہ کا کہنا تھا: ’ہم اس نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمیں گذشتہ سالوں اور کرونا کی وبا کے دوران اٹھانا پڑا ہے۔ لیکن موجودہ صورت حال اگر اسی طرح جاری رہی تو ہمارے نقصانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

ایک نجی کمپنی کے ملازم عارف نے کہا: ’میری موٹر سائیکل ضبط کر لی گئی اور مجھے شہر کے مرکزی پولیس سٹیشن میں چار گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔ میرے پاس تمام کاغذات موجود تھے لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی اور میری موٹر سائیکل کو پولیس سٹیشن لے گئے۔‘

تب سے ہی عارف پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے اپنے دفتر آ رہے اور ان کے دفتر کے حکام کو خدشہ ہے کہ ان کی موٹر سائیکل دوبارہ ضبط کر لی جائے گی۔ عارف نے کہا: ’اس صورت حال میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا کافی خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

دوسری جانب شہر میں نئے نئے تعمیر ہونے والے بنکروں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا