سیاسی مداخلت اور وی آئی پی کلچر کے سامنے بے بس پولیس والے

ملک کی اشرافیہ پولیس کو زیادہ خودمختار ہونے نہیں دیتی کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ خودمختار پولیس اس کے سامنے نہیں جھکے گی۔

چھوٹے رینک کے پولیس اہلکاروں کی مشکلات پر کوئی نظر نہیں ڈالتا( اے ایف پی)

چند سال قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری اور ان کے بیٹے کے خلاف شہر میں ہائی الرٹ کے دوران تلاشی لینے کے لیے بڑھنے والے سپیشل برانچ کے اہلکار کے ساتھ مبینہ طور پر بدتمیزی کرنے اور اس کو تھپڑ رسید کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین کے خلاف تھانہ مارگلہ میں درج کیے گئے مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس اہلکار ضلع کچہری میں لگائے گئے واک تھرو گیٹ کے پاس اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا کہ اس دوران نیئر حسین بخاری اپنے سکیورٹی گارڈ کے ہمراہ داخل ہونے لگے۔

اہلکار نے سینیٹ کے سابق چیئرمین کو چیک کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مبینہ طور پر نہ صرف تھپڑ رسید کیے بلکہ سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔ یہ سارا واقعہ کچہری میں لگے سی سی ٹی وی نے ریکارڈ کیا۔

پھر لاہور میں ایک مبینہ طور پر نشے میں دھت خاتون نے شور شرابا کیا۔ نزدیک ہی موجود پولیس پارٹی موقعے پر پہنچی اور خاتون سے کہا کہ وہ بوتل ہٹائیں لیکن خاتون نے پولیس اہلکار کی بات سننے کے بجائے اس کو مارنا شروع کر دیا۔

تھپڑ مارنے کے بعد خاتون آرام سے اپنی دوست کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر چل پڑیں۔ سی سی پی او نے پولیس اہلکار کی تعریف کی کہ عورت کی بدتمیزی کے باوجود ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اور ساتھ ہی انہوں نے انکوائری کا حکم دیا۔

کانسٹیبل فائزہ فیروز والا کچہری میں سکیورٹی پر مامور تھیں۔ ایڈووکیٹ احمد مختار اور کانسٹیبل کے ساتھی پولیس اہلکار کے درمیان مین گیٹ پر گاڑی کی غلط پارکنگ پر بحث ہوئی۔

احمد مختار سے گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرنے کا کہا گیا کیونکہ سکیورٹی چیک میں دقت ہو رہی تھی۔ چند لمحوں میں ہی ایڈووکیٹ احمد مختار اشتعال میں آگئے اور کانسٹیبل فائزہ کو مبینہ طور پر لاتیں اور تھپڑ مارنا شروع کر دیے۔

وہاں اور وکلا بھی جمع ہو گئے اور کانسٹیبل کے ساتھی اہلکار کے بازو پیچھے پکڑ کر باندھ دیے۔

کراچی میں ایک خاتون نے پولیس اہلکار کو تھانے کا گیٹ کھولنے کے لیے کہا تاکہ وہ اپنی گاڑی اندر لا سکے۔ اہلکار کے انکار پر خاتون پہلے ہارن بجاتی رہی اور جب گیٹ نہیں کھلا تو وہ گاڑی سے اتری اور پہلے بدتمیزی کی اور پھر اہلکار کو تھپڑ مارا۔

اس کی اس حرکت کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی۔ یہ چند واقعات ہیں اور اس قسم کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ اور ہر خبر کے ساتھ مبینہ طور پر لکھنا پڑتا ہے کیونکہ ان کیسز کا فیصلہ نہیں ہو پایا۔

پولیس اہلکار اس سماج کے امرا، طاقت ور، اثرو رسوخ رکھنے والے افراد کے درمیان میں پھنسے اور بے بس ہیں۔ وہ صرف احکامات مانتے ہیں۔

ان کو معلوم ہے کہ پارلیمنٹ میں آنے جانے والوں کو کسی خلاف ورزی پر روکا تو اگلے روز کیا اسی دن ان کو لائن حاضر کروا دیا جائے گا۔

ان پولیس اہلکاروں کو بخوبی اس بات کا اندازہ ہے کہ جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے کمرے میں گھس کر ان کو یرغمال بنا سکتے ہیں وہ پولیس کے سب انسپکٹر کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔

ان پولیس اہلکاروں کو یہ بھی معلوم ہے کہ شراب پی کر دنگا فساد کرنا اور وہ جو پولیس اہلکار کو تھپڑ مار سکتے ہیں ان کی پشت پر مرتبے والے، عہدوں والے اور اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں۔

ملک کی اشرافیہ پولیس کو زیادہ خودمختار ہونے نہیں دیتی کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ خودمختار پولیس کا مطلب ہے کہ وہ اشرافیہ کے سامنے نہیں جھکے گی۔

چھوٹے رینک کے پولیس اہلکاروں کی مشکلات پر کوئی نظر نہیں ڈالتا جبکہ پولیس فورس کا تقریباً 85 سے 90 فیصد حصہ یہی چھوٹی رینک کے اہلکار ہیں۔ 

کم تنخواہیں، سستی رہائش کی سہولت موجود نہیں، پولیس کے اپنے ہسپتالوں کا حال دیکھ لیں تو وہ کیا ان اہلکاروں کو طبی سہولیات فراہم کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوکری پر انہی اہلکاروں کو ان مسلح افراد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زیادہ جدید اسلحے سے لیس ہوتے ہیں۔

جس کا دل چاہے لونگ مارچ کا اعلان کر دے اور صرف لاٹھیوں اور آنسو گیس سے مسلح یہ اہلکار ان لانگ مارچ کے شرکا کا مقابلے کرتے ہیں جو ان سے زیادہ لیس ہوتے ہیں۔

کالعدم تنظیموں کی جانب سے لانگ مارچ شروع ہوتا ہے تو تصادم میں آدھ درجن پولیس اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہونا تو معمول ہے۔

لیکن جب حکومت ان سے مذاکرات کرتی ہے اور ان کے مطالبات مان کر سارے مقدمے واپس لے لیتی ہے تو ان اہلکاروں پر کیا گزرتی ہے جن کے پیٹی بھائی تصادم میں ہلاک ہوئے۔

جناب پولیس اہلکار حرام نہیں کھاتے بلکہ بے بس ہیں۔ بے بس ہیں سیاسی مداخلت کے سامنے، بے بس ہیں امرا کے سامنے اور بے بس ہیں وی آئی پی کلچر کے سامنے۔

کتنا ہی اچھا ہو اگر با اختیار افراد ایک بار اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ کتنے ایسے واقعات ہو چکے ہیں اور ان کا نتیجہ کیا نکلا اور کتنے مقدمات چل رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ