چینی سافٹ ویئر سے سٹاک ایکسچینج سائبر حملوں سے محفوظ ہوجائے گی؟

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں فی الحال جو سافٹ ویئر استعمال ہورہا ہے وہ دو دہائی پرانا ہے جس کا نام کیٹس ہے۔ یہ دن بھر کا حساب کتاب کرنے میں 30 منٹ لگاتا ہے جبکہ نئے سافٹ ویئر کے استعمال سے کاروبار کرنے کے لیے 30 منٹ کا اضافی وقت مل جائے گا۔

کراچی میں واقع پاکستان سٹاک ایکسچینج کے مرکزی دفترکا داخلی دروازہ (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو) 

پاکستانی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار حصص کے حساب کتاب کے لیے استعمال ہونے والے دو دہائی پرانے سافٹ ویئر کو جدید سافٹ ویئر سے تبدیل کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

یہ نیا سافٹ ویئر ایسے وقت میں تبدیل کیا جارہا ہے جب پاکستان میں سرکاری سطح پر ٹیکنالوجی کے استعمال میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافے کے بعد مختلف بینکوں سمیت مالیاتی اداروں کے سرورز پر سائبر حملے ہورہے ہیں۔

چین سے 10 ماہ قبل 46 کروڑ روپے میں خریدے جانے والے اس سافٹ ویئر کا نام ڈی ٹی ایس ہے، جو چین کی شینگن سٹاک ایکسچینج میں استعمال کیا جارہا ہے۔

 

آٹومیٹک ٹریڈنگ سسٹم والے اس جدید سافٹ ویئر کو 10 ماہ تک ٹیسٹ کرنے کے بعد 25 اکتوبر سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے تجارتی نظام کو اس پر منتقل کیا گیا تھا، تاہم 25 سے 29 اکتوبر تک فعال رہنے والے نظام میں تکنیکی مسائل درپیش رہے جس کے بعد سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور سٹاک بروکرز کی مشاورت سے تجارتی نظام کو پرانے سافٹ ویئر کیٹس پر منتقل کردیا گیا۔

جس کے بعد دوبارہ یکم نومبر کو ٹیسٹ کیا گیا، مگر تکنیکی مسائل برقرار رہنے کے سبب دوبارہ پرانے سسٹم کو بحال کردیا گیا۔

اس سلسلے میں کراچی سٹاک ایکسچینج کے سابق ڈائریکٹر اور اے کے وائی سکیورٹیز کے سی ای او امین یوسف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈی ٹی ایس ٹریڈنگ کا ایک جدید نظام ہے جو دنیا کی دوسری یا تیسرے بڑی شینگن سٹاک ایکسچینج میں زیر استعمال ہے۔ اس سافٹ ویئر میں ڈیٹا لیک کے امکانات نہیں ہیں اور اس میں بلٹ اِن رسک مینجمنٹ سسٹم موجود ہے جو پورے دن کے حصص کے کاروبار کا حساب کتاب ایک منٹ سے کم وقت میں کر دیتا ہے۔

امین یوسف کے مطابق: ’پاکستان سٹاک ایکسچینج میں فی الحال جو سافٹ ویئر استعمال ہورہا ہے وہ دو دہائی پرانا ہے جس کا نام کیٹس ہے۔ یہ دن بھر کا حساب کتاب کرنے میں 30 منٹ لگاتا ہے جبکہ نئے سافٹ ویئر کے استعمال سے کاروبار کرنے کے لیے 30 منٹ کا اضافی وقت مل جائے گا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’پرانے سافٹ ویئر میں ڈیٹا لیک کا خطرہ لگا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ جب مارکیٹ میں تیزی آتی تھی تو مارکیٹ بند یا ہالٹ ہوجاتی تھی۔ اس نئے نظام میں ڈیٹا لیک یا اس پر سائبر حملوں کا بھی خطرہ نہیں۔ اس کے علاوہ یہ تیز ہے، زیادہ لوڈ برداشت کرسکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ نیا نظام عالمی منڈی سے جڑا ہوا ہے۔‘

امین یوسف کے مطابق: ’ابھی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے، یہ نظام بیک ڈور پر کام کرے گا مگر فرنٹ ڈور پر کوئی اور سافٹ وئیر کیونکہ اس نئے نظام کے ساتھ منسلک ہونے میں کچھ مسئلے آرہے ہیں، مگر جلد ہی ان مسائل کو حل کردیا جائے گا۔‘

امین یوسف نے بتایا کہ ’جب سافٹ ویئر تیز چلے گا تو کاروبار بھی زیادہ ہوگا۔‘

اسٹاک ایکسچینج ہوتی کیا ہے؟

سٹاک ایکسچینج ایک سرکاری پلیٹ فارم یا مارکیٹ ہوتی ہے، جہاں مختلف کمپنیوں کے سٹاک یا حصص کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا جاتا ہے۔

کسی بھی ادارے کے کاروبار کا کُل حجم سٹاک میں چھوٹے چھوٹے یونٹس یا حصص میں تقسیم کیا جاتا ہے، جسے عام طور پر حصص یا شیئرز کہا جاتا ہے۔

کوئی بھی کمپنی کسی بینک سے سود پر قرضہ لینے کے بجائے سرمایہ حاصل کرنے کے لیے اپنی کُل مالیت میں سے کچھ شیئرز یا حصص میں بانٹ کر سٹاک میں لاتی ہے اور لوگ اسے ادارے کی ساکھ یا کاروبار میں ترقی کی بنیاد پر خریدتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک کمپنی اپنی کُل مالیت ایک ارب روپے کا 10 فیصد یعنی 10 کروڑ روپے سٹاک میں کاروبار کے لیے متعارف کراتی ہے تو ایک رائج طریقہ کار سے اس کمپنی کی مالیت کا اندازہ لگا کر شیئرز یا حصص کا ریٹ طے کیا جاتا ہے۔

اگر اس طریقے سے 10 کروڑ روپے کے اگر ایک کروڑ حصص یا شیئرز بنے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک حصص کی قیمت 10 روپے ہے، جو سٹاک ایکسچینج میں کوئی بھی خرید سکتا ہے۔

اب ان کی مالیت کمپنی کے منافعے کی بنیاد پر یا مارکیٹ میں اس کے حصص کی مانگ کی بنیاد پر کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔

سٹاک ایکسچینج کسی بھی ملک میں عام طور پر شہروں کے نام سے منسوب ہوتی ہے، جیسے شینگن سٹاک ایکسچینج، نیویارک سٹاک ایکسچینج وغیرہ۔

شہروں کے ناموں سے منسوب ان سٹاک ایکسچینجز کو آپس میں جوڑ کر اس ملک کی مرکزی سٹاک ایکسچینج بنائی جاتی ہے جیسے پاکستان سٹاک ایکسچینج، جو اصل میں ملک کے تین شہروں کے سٹاک ایکسچینجز بشمول کراچی، لاہور اور اسلام آباد کو آپس میں ملاکر بنائی گئی ہے۔

پاکستان سٹاک کا مرکزی دفتر کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے۔

پہلے تینوں شہروں کی سٹاک ایکسچینجز الگ الگ کام کرتی تھیں مگر 2012 میں سٹاک مارکیٹ کے انضمام یا ڈی میچولائیزیشن کا قانون منظور کیا گیا اور جنوری 2016 میں تینوں سٹاک ایکسچینجز کو ملا کر پاکستان سٹاک ایکسچینج بنا دی گئی، جو اپنی نوعیت کا پہلا سٹاک ایکسچینج ہے جس میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی تینوں مارکیٹس میں ایک ساتھ ٹریڈنگ ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انضمام یا ڈی میچولائیزیشن کے قانون کے تحت کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے تین سٹاک ایکسچینجز اپنے 40 فیصد تک حصص سرمایہ کاروں کو فروخت کریں گے اور یہ ’سٹرٹیجک سرمایہ کار‘ بیرونی سٹاک ایکسچینجز بھی ہو سکتی ہیں۔

تینوں سٹاک ایکسچینجز کے ارکان 40 فیصد کے مالک ہوں گے جبکہ باقی 20 فیصد حصص عوام کو فروخت کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج لمیٹڈ کی ہیڈ آف مارکیٹنگ و بزنس ڈیویلپمنٹ رائدہ لطیف کے مطابق اس وقت پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 500 سے زیادہ کمپنیاں اور ڈھائی لاکھ ٹریڈرز رجسٹرڈ ہیں۔ یہ ٹریڈر بروکر کی معرفت حصص خرید یا فروخت کرسکتے ہیں۔

کسی کمپنی کے حصص اگر مارکیٹ میں زیادہ خریدے جائیں تو ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جس کمپنی کے حصص زیادہ بکنے لگتے ہیں، اس کمپنی کے حصص کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ اس رجحان کو مارکیٹ کا اتار چڑھاؤ کہا جاتا ہے۔

حصص میں نفع یا نقصان کی دو اقسام ہوتی ہیں جیسے آپ نے ایک کمپنی کے حصص 10 روپے کے ریٹ پر خریدے اور مارکیٹ میں اس کا ریٹ گر گیا تو آپ کو نقصان اور اوپر گیا تو نفع ہوگا۔

اس کے علاوہ سٹاک میں لسٹڈ کمپنیاں اپنے منافعے کو اپنے شیئر ہولڈرز کے ساتھ سالانہ یا ششماہی بنیاد پر بانٹتی ہیں، جسے ڈیویڈنڈ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے شیئر ہولڈرز کے لیے ترغیب ہوتی ہے کہ وہ کمپنی کے شیئرز زیادہ عرصے تک اپنے پاس رکھیں اور ان پر سٹاک کے اتار چڑھاؤ کا اثر نہ پڑ سکے۔

سالانہ یا ششماہی بنیاد پر منافعے میں حصہ دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر حصص کی قیمت سارا سال نہ بھی بڑھے تو حصص خریدنے والے کو نقصان نہ ہو اور اسے ششماہی یا سالانہ بنیاد پر کچھ منافع مل جائے اور اس طرح اسے متعلقہ ادارے کے حصص خرید کر رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت