تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کن شرائط پر ہو رہے ہیں؟

اگر حکومت نے طالبان کو غیرمسلح کرنے کی کوشش کی تو خدشہ ہے کہ معاہدہ اگر ناکام نہیں ہوا تو معطل ہو جائے گا اور ایک بڑی تعداد میں طالبان داعش میں شامل ہو جائیں گے۔

شمالی وزیرستان کی وادیِ شوال میں پاکستانی فوج کے اہلکار 20 مئی  2016 میں پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان گذشتہ تین ماہ سے جاری امن مذاکرات بظاہر کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ اس دوران کن شرائط پر بات ہو رہی ہے اور طالبان کی طرف سے کیا مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے مذاکراتی عمل سے باخبر ماہرین سے بات کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کن معاملات پر گفت و شنید ہو رہی ہے جس سے ان مذاکرات میں زیرِ بحث شرائط پر گفتگو کی تفصیل سامنے آئی ہے۔ 

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق مذاکرات ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں ریاست کی حاکمیت، ملکی سلامتی، متعلقہ علاقوں کے امن، معاشرتی اور اقتصادی استحکام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے افراد کو ان مذاکرات میں نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور ان کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔

اس کے جواب میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور طے پانے والے معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

’پہلے بھی کئی بار امن معاہدے ہوئے ہیں‘

طالبان کو قریب سے جاننے والے مولانا نور حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی حکومت اور طالبان کے درمیان کئی بار امن معاہدے ہوئے ہیں لیکن پائیدار امن قائم نہیں ہو سکا۔‘ انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ’طالبان چاہتے ہیں کہ علاقے کے تمام معاملات کے اختیارات ان کے پاس رہیں تبھی امن قائم ہو سکتا ہے۔‘

مولانا نور کے مطابق ’علاقے میں طالبان کا خیال ہے کہ جتنے بھی مقدمات ہیں خواہ وہ دیوانی ہوں یا فوجداری، ثالثی کے لیے لوگ طالبان کے پاس آئیں۔ اس سے ایک طرف طالبان کو فیصلے کرنے کی اجرت ملے گی اور دوسری طرف فریقین کو انصاف بھی ملے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ طالبان چاہتے ہیں کہ سرحد کے اس پار سے آنے والے سامان پر ٹیکس میں بھی ان کا حصہ شامل ہو جس سے وہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔

جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی جمال الدین محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات بہت ضروری ہیں اور ان کی کامیابی کے بعد علاقے میں امن قائم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلحہ رکھیں یا نہیں، یہ بھی معاہدے کا حصہ ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمال الدین کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ مالی طور طالبان کی مدد کریں ورنہ طالبان دوبارہ اپنی پرانی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر صورت میں طالبان کے مالی مسائل کو حل کرنا ہو گا۔

سابق سینیٹر اور مذاکرات میں شامل مولانا صالح شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پرامید ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی معاہدہ طے پاتا ہے اس پر مرحلہ وار عمل درآمد کیا جائے گا اور معاہدہ علاقے میں امن لائے گا۔

اسلحے کے بغیر طالبان خود کو محفوظ نہیں سمجھتے

امن معاہدہ کامیاب ہو گا یا ناکام، دونوں صورتوں میں مبصرین کے مطابق افغان سرحد پر واقع قبائلی اضلاع میں موجود ’گڈ‘ اور ’بیڈ‘ طالبان یعنی دونوں دھڑوں کے طالبان اسلحہ نہیں واپس کریں گے۔ ’اسلحہ کے بغیر طالبان خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی فوج اور طالبان کے درمیان گذشتہ 16 سالہ جنگ کے دوران ہزاروں عام لوگوں کے علاوہ 1250 سے زیادہ قبائلی ملک (عمائدین) نشانہ بنے ہیں جس کی وجہ سے طالبان نے اپنے علاقے میں اپنے ہی لوگوں سے دشمنیاں پیدا کی ہیں۔ طالبان کے ایسے مخالفین سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس فی الوقت بندوق اٹھانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

اگر حکومت نے طالبان کو غیرمسلح کرنے کی کوشش کی تو خدشہ ہے کہ معاہدہ اگر ناکام نہیں ہوا تو معطل ہو جائے گا اور ایک بڑی تعداد میں طالبان داعش میں شامل ہو جائیں گے۔ مبصرین کے خیال میں ہتھیار رکھنے کے بعد وزیرستان میں بلکہ پورے قبائلی اضلاع میں ان کو شدید مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ ایک مقامی شخص محمد اللہ نے بتایا کہ ’جس قبائل کا کوئی فرد طالبان کے ہاتھوں یا نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوا ہے وہ ضرور طالبان سے بدلہ لے گا۔‘

’لوگوں کے دلوں سے طالبان کا خوف ختم ہو جائے گا‘

تاہم جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل ذوالفقار خان کے خیال میں اگر حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کامیاب ہو گئے تو پورے خطے میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ ان کے خیال میں اس سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور قبائلی اضلاع میں طالبان برائے نام رہ جائیں گے اور لوگوں کے دلوں سے طالبان کا خوف ختم ہو جائے گا اور وہ لوگوں سے پیسے لینا بھی بند کر دیں گے۔

قبائلی عمائدین کے مطابق حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں بھی یہ بات سرفہرست ہے کہ طالبان اسلحہ نہیں رکھیں گے البتہ وہ وزیرستان کے کسی دور علاقے میں رہائش پذیر ہوں گے اور ان کے خاندان والے جہاں بھی رہنا پسند کریں گے رہ سکیں گے۔

جہاں تک طالبان کے اخراجات کا تعلق ہے ابھی تک سرکاری طورپر یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ معاہدے کے بعد طالبان اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔ تاہم اس سے پہلے حکومت پاکستان نے گڈ طالبان کو امن کمییٹوں کے نام پر مختلف طریقوں سے فنڈ بنانے کا راستہ دیا تھا۔

بہرحال مذاکرات جو رخ بھی اختیار کریں، قبائلی اضلاع میں لوگ حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے پرامید ہیں کہ یہ کامیاب ہوں گے اور قبائلی اضلاع پر ایک نئی صبح طلوع ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان