برطانیہ کی حکومت نے منگل کے روز برٹش ایئرویز سے معافی مانگی ہے کہ اس نے 1990 میں فضائی کمپنی کو خبردار نہیں کیا تھا کہ عراق کویت پر حملہ کرنے والا ہے اور اس کے نتیجے میں پرواز کو یرغمال بننے کے ڈرامے سے گزرنا پڑا۔
برٹش ایئر ویز کی پرواز 149 کو کوالالمپور کے بجائے ایک خلیجی ریاست میں دو اگست کو اتار لیا گیا تھا۔ یہ واقعہ صدام حسین کی فوجوں کے کویت میں داخل ہونے کے چند گھنٹے بعد پیش آیا تھا۔
جہاز پر سوار مسافروں اور عملے سمیت 367 افراد نے چار ماہ سے زیادہ قید میں گزارے تھے جنہیں عراقی آمر نے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔
سابق یرغمالی کافی عرصے سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ لندن میں حکومت کو معلوم تھا یا نہیں اور تھا تو کب معلوم ہوا؟ اور یہ بھی کہ سپیشل فورسز فلائٹ پر تھیں کہ نہیں اور انہیں خطرے میں کیوں ڈالا گیا؟
سیکریٹری خارجہ لز ٹرس نے پارلیمان کو بتایا ہے کہ کویت میں برطانیہ کے سفیر نے دو اگست 1990 کی آدھی رات کو لندن کو عراق پر حملے کی اطلاع دی تھی۔
بی اے 149 اس وقت فضا میں تھی جب خارجہ، دفاع، ڈاؤننگ سٹریٹ اور ایم آئی سکس سمیت دیگر شعبہ جات کو پیغام موصول ہوا۔
سیکریٹری خارجہ لز ٹرس نے تحریری جواب میں بتایا: ’لیکن وہ برٹش ایئرویزکو نہیں بھیجا گیا۔‘
یہ تمام تحریریں برطانیہ کی قومی آرکایوز کا حصہ بنائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جو کال سفیر نے کی تھی اسے آج سے قبل کبھی عام نہیں کیا گیا یا عوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔‘
’ان فائلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ کال کی عوام اور پارلیمان کے سامنے کبھی ظاہر نہیں کی گئی تھی اور یہ ناکامی قابل قبول نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’موجودہ سیکریٹری آف سٹیٹ کی طرح میں بھی اس ہاؤس سے معافی مانگتی ہوں اور ان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتی ہوں جنہیں یرغمال بنا کر برا سلوک کیا گیا۔‘
برٹش ایئرویز کی فلائٹ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
بی اے 149 کو باقدعدہ طور پر تکنیکی خرابی کی وجوہات کی بنا پر کویت میں اتار لیا گیا تھا۔ یہ کام شہر کے ایئر پورٹ کے بند ہونے کے 45 منٹ بعد کیا گیا تھا۔
ٹرس کا کہنا ہے کہ فائلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفیر کو عراق پر حملے کے سنگینی کا اندازہ نہیں تھا اور اس وقت ایسا کوئی وضع شدہ نظام نہیں تھا جس کے تحت ایئرلائن یا خطرے کا شکار فلائٹس کو خبردار کیا جاسکتا۔
انہوں نے حکومت کے پہلے بیان کردہ موقف کی بھی توثیق کی کہ برطانیہ کے خصوصی دستے جہاز میں نہیں تھے اور ’انہوں نے کسی بھی طرح سے پرواز کا استحصال کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘
برٹش ایئر لائن ہمیشہ سے لاپرواہی، سازش اور پردہ پوشی کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
ایئرلائن کا کہنا ہے کہ ’ان ریکارڈز سے ثابت ہوتا ہے کہ کمپنی کو کبھی بھی چڑھائی کے بارے میں خبردار نہیں کیا گیا تھا۔‘
لیکن مسافروں میں سے ایک بیری مینرز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس معذرت کو قبول نہیں کرتے اور اس بیان کو مسترد کرتے ہیں فلائٹ پر کوئی سپیشل فورسز نہیں تھیں۔
’زمین پر وہ کون تھے پھر؟ کیا رگبی ٹیم کے ارکان تھے؟ وہ سنجیدہ لوگ تھے۔ آپ کو صرف ان کو دیکھنا چاہیے تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ فوجی تھے۔‘
رواں سال کے آغاز میں ’آپریشن ٹروژن ہارس‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ لندن نے انڈر کور آپریٹیوز کی تعیناتی اور انہیں فلائٹ پر سوار کرانے کے لیے تاخیر کرکے جان بوجھ کر مسافروں کو خطرے میں ڈالا۔