امریکہ کی جمہوریت پر کانفرنس میں تائیوان مدعو، چین کو نہیں بلایا گیا

امریکی صدر جو بائیڈن نے ورچوئل سربراہی جمہوریت کانفرنس میں شرکت کے لیے سو سے زائد ممالک کو دعوت دی ہے، مگر تائیوان کو دعوت پر چین برہم ہو سکتا ہے۔

جمہوریت پر سربراہ کانفرنس کا وعدہ صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا (اے ایف پی فائل)

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے تائیوان کو جمہوریت پر ہونے والی ورچوئل سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے، مگر چین کو نہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے کانفرنس میں شرکت کے لیے سو سے زائد ممالک کو دعوت دی ہے، مگر تائیوان کو دعوت پر چین برہم ہو سکتا ہے۔

جمہوریت پر سربراہ کانفرنس کا وعدہ صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا۔ صدر نے جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کے درمیان کشمکش کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ بنا رکھا ہے۔

یہ کانفرنس نو اور 10 دسمبر کو آن لائن ہوگی جس کے بعد اگلے سال اس ضمن میں ہونے والی دوسری کانفرنس میں سربراہ مملکت ذاتی طور پر شرکت کریں گے۔

اس کانفرنس کی طویل عرصے تک تشہیر کی گئی تاہم منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر شرکا کی فہرست شائع ہوئی۔

امریکہ کے بڑے حریف چین اور روس اس فہرست میں شامل نہیں ہیں، جو حیران کن نہیں ہے۔ لیکن امریکہ نے تائیوان کو ضرور دعوت دی جسے وہ آزاد ملک تسلیم نہیں کرتا لیکن ایک مثالی جمہوریت سمجھتا ہے۔

تائیوان خود کو خودمختار سمجھتا ہے مگر چین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے اور اس نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ ایک دن ضرورت پڑنے پر طاقت استعمال کر کے اس پر قبضہ کر لے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان حالات میں جمہوریت پر سربراہ کانفرنس میں تائیوان کو دعوت دینے کے امریکی اقدام سے دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں لازمی طور پر اضافہ ہو گا۔

امریکہ کی ہوفسٹرا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور چینی امور کے ماہر جولین کو نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا: ’میں تائیوان کے اہل ہونے سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن ایسا ضرور لگتا ہے کہ واحد ایسی جمہوری حکومت کو دعوت دی گئی جسے امریکہ سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اس کی شمولیت ایک بڑی بات ہے۔‘

بھارت، جسے اکثر ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ کہا جاتا ہے، بھی کانفرنس میں شریک ہوگا، حالانکہ قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں جمہوری اقدار سے پیچھے ہٹ رہا ہے جس پر انسانی حقوق کے کارکنوں کو تشیوش ہے۔

پاکستان بھی واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود کانفرنس میں شرکت کرے گا۔

نیٹو میں امریکہ کا اتحادی ترکی، جس کے صدر رجب طیب اردوغان کو بائیڈن نے ’آمر‘ قرار دیا، وہ بھی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

مشرق وسطیٰ سے صرف اسرائیل اور عراق کو دعوت دی گئی ہے۔ امریکہ کے روایتی عرب حلیف مصر، سعودی عرب، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات بھی موجود نہیں ہوں گے۔ بائیڈن نے برازیل کو بھی دعوت دی ہے جہاں انتہائی دائیں بازو کے متنازع صدر ہایئر بولسونارو کی حکومت قائم ہے۔

قانون کی عملداری کے احترام پر برسلز کے ساتھ بار بار ہونے والی کشیدگی کے باجود یورپ سے پولینڈ نمائندگی کرے گا لیکن ہنگری کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم وکٹر اوربن کو دعوت نہیں دی گئی۔ افریقہ سے جمہوریہ کانگو، کینیا، جنوبی افریقہ، نائیجیریا اور نائیجر کو دعوت دی گئی ہے۔

اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کی لالح اصفہانی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بائیڈن پر زور دیا کہ سربراہ کانفرنس کو چین مخالف اجلاس کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے اسے ’امریکہ سمیت دنیا بھر میں جمہویت کے زوال کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام میں لایا جائے۔‘

یہ سربراہ کانفرنس ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب ان ملکوں میں جمہوریت کو مسائل کا سامنا ہے جن سے امریکہ کو بڑی امیدیں ہیں۔

سوڈان اور میانمار میں فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ ایتھوپیا ایسی لڑائی میں گھرا ہوا ہے جو اس کی تقسیم کا سبب بن سکتی ہے، جبکہ دو دہائیوں کے بعد امریکہ کے انخلا کے نتیجے میں طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھال لیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ