برطانوی ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کی جانب سے فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس پر پابندی کے اعلان کے بعد فلسطین کے اندر خدشات کی ایک نئی لہر نے سر اٹھایا ہے۔
لندن نے اب تک حماس کے صرف عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈ کو ہی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
غزہ کی حکمران جماعت نے برطانوی اعلان کو ’اسرائیل نواز‘ فیصلہ قرار دے کر اس کی شدید ’مذمت‘ کی ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینٹ نے اپنے ذاتی دوست بورس جانسن کے فیصلے کو ’سراہا‘ ہے۔
اطلاعات کے مطابق پریتی پٹیل حماس کے سیاسی اور عسکری شعبوں پر پابندی کے لیے برطانوی پارلیمنٹ سے رجوع کرنے والی ہیں۔
منظوری کے بعد یقیناً برطانیہ میں تنظیم کی سرگرمیوں پر پابندی اور اس میں شرکت کرنے والوں کو بھاری جرمانوں اور قید کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فیصلے کے دور رس نتائج برطانیہ سے بڑھ کر خود فلسطین بالخصوص غزہ کی پٹی میں محسوس کیے جائیں گے جہاں مزاحمتی تحریک اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے رفاہ عامہ کے بڑے منصوبے چلا رہی ہے جن پر لاکھوں افراد کی زندگی کا دار ومدار ہے۔
امسال مئی میں ہونے والی اسرائیلی جنگ کے بعد سے روس اور چند مغربی ملکوں نے فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا شروع کی۔ جس پر یورپی یونین، امریکہ اور کینیڈا کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا۔
حماس کے سیاسی حریف اور فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیہ نے حالیہ برطانوی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
برطانیہ میں فلسطینی سفارت خانے نے بھی پریتی پٹیل کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے صیہونی ایجنڈے کے ساتھ ساز باز قرار دیا تاکہ فلسطینیوں کی مجموعی جدوجہد کو ’مجرمانہ کارروائی قرار دلوایا جا سکے۔‘
اس تناظر میں اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینٹ نے دہشت گرد تنظیموں کی مذمت کے لیے ایک بیان داغا تھا جس کے بعد انہوں نے اسرائیل کے اندر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی چھ تنظیموں کو غیرقانونی قرار دیا۔
نفتالی نے گلاسگو میں ہونے والے کلائمیٹ چینج سمٹ کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم کو ایک ذاتی بیان کے ذریعے حماس کے خلاف قدم اٹھانے کی اپیل بھی کی تھی۔
اعلان سے ثابت ہوتا ہے کہ برطانیہ، نفتالی بینٹ کی فرمائش پر ایسے دور رس فیصلے کر رہا ہے جس میں فلسطینیوں کی انتہا درجہ توہین کا پہلو نکلتا ہے۔
یادش بخیر! حماس کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق بیان جاری کرنے والی برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل کئی برسوں پہلے ٹریزا مے کی حکومت کے دوران ہیڈ آف انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کی حیثیت سے اسرائیل گئیں اور نتن یاہو حکومت کے عہدیداروں سے غیر رسمی طور پر مذاکرات کیے۔
پٹیل کا یہ اقدام برطانوی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے لندن واپسی پر انہیں وزارت سے نکال دیا گیا تھا۔
بورس جانسن کی طرح پٹیل کا جھکاؤ بھی اسرائیل کے حق میں ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حماس سے متعلق اپنے سرکاری نقطہ نظر کو یورپی یونین سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
برطانیہ خود یورپی یونین سے نکل کر اپنی آزاد پالیسیاں تشکیل دینے کے نام پر ایک جوا کھیل چکا ہے۔
برطانیہ نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کے موقع پر وہ عالمی طاقتوں کے سامنے تہران کے خلاف لابنگ کرے گا تاکہ ایران نواز تنظیموں کے عزائم سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔
برطانوی لیبر پارٹی ماضی میں فلسطین کی حمایت میں موقف کے حوالے پہچانی جاتی تھی جس کی بنا پر اسرائیل میں بعض حلقے اسے یہود مخالف جماعت قرار دیتے رہے ہیں۔ لیبر پارٹی کے اس ’الزام‘ سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھی حماس کو دہشت گرد قرار دینے کی حماقت کی۔
پریتی پٹیل کا حماس کو دہشت گرد قرار دلوانے کا فیصلہ جمہوری اصولوں کی بھی نفی ہے کیونکہ فلسطینی عوام اگر کسی تنظیم کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرتے ہیں تو انہیں جمہوری اصول کے تحت اس سے منع نہیں کیا جا سکتا۔
عمومی اصول یہی ہے کہ اگر دنیا برطانوی عوام کو کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دینے سے روکنے کا اختیار نہیں رکھتی تو بعانیہ دنیا کا کوئی بھی فورم کسی فلسطینی تنظیم کے حق میں رائے دہی کو غیرقانونی قرار نہیں دے سکتا۔
برطانوی فیصلے کے مضمرات جاننے کے لیے چند بنیادی حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ کیا اسرائیل پر قبضہ فلسطین نے کر رکھا یا پر فلسطین کی سرزمین اسرائیل نے ہتھیائی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل نے مقبوضہ فسلطینی علاقے میں 640 فوجی چوکیاں بنا رکھی ہیں۔ وہی نہتے فلسطینیوں کو اپنی جنگی مشین کے ذریعے ہلاک کر رہا ہے۔ دیرپا تنازعات کے حل میں ناکامی میں پیدا ہونے والی خجالت مٹانے کے لیے ایک دوسرے کو دہشت گرد قرار دینے کی روش مسئلہ فلسطین جتنی ہی پرانی ہے۔
امریکہ نے یاسر عرفات کو دہشت گرد قرار دے کر یو این اجلاس میں شرکت کا ویزا دینے سے انکار کیا تھا لیکن اسی یاسر عرفات نے انکل سام کی ثالثی میں خود اپنے عوام سے دھوکہ کرکے اسرائیل سے اوسلو کے مقام پر جو معاہدہ کیا آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
افغانستان میں غیرملکی تسلط کے خلاف مصروف طالبان کو بھی ایسے ہی دہشت گردی کے القابات سے نوازا تھا لیکن زمینی حقائق کے سامنے سرتسلیم خم کرتے انہی مبینہ دہشت گردوں سے ساتھ مذاکرات کی میز سجانا پڑی۔
خود پاکستان میں ریاست جن عناصر کو دہشت گرد اور بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام دیتی چلی آئی ہے، ان سے مذاکرات کا عزم ظاہر کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے پر تول رہی ہے۔
تاریخ کے تلخ حقائق سے سبق لیتے ہوئے برطانیہ کو ایسے فیصلے کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ جن سے کل کلاں کو ان کی آنے والے حکومتوں کو ’یوٹرن‘ لینا پڑے، جو ’مدر آف آل ڈیموکریسز‘ کے ماتھے پر ایسا بدنما داغ شمار ہو گا جسے آنے والی کئی نسلیں مٹا نہ سکیں گی۔
قضیہ فلسطین کے حوالے سے برطانیہ کا اپنا ٹریک ریکارڈ بھی مثالی نہیں رہا۔ بیک وقت دو متضاد معاہدے کرنے والا برطانیہ ہی دراصل سارے فساد کی جڑ ہے۔
برطانیہ کے کاندھوں پر فلسطین ایسا قرض ہے کہ جسے اتارنے میں لندن کے جمہوری اداروں کو دیر نہیں لگانی چاہیے ورنہ شرق اوسط میں امن کا خواب آزاد خودمختار فلسطینی ریاست کی طرح ادھورا رہ جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔