بلوچستان: انقلاب کے تین نشان اور ڈاکٹر کہور بلوچ 

بلوچستان کے مشہور دانش ور اور سیاسی رہنما ڈاکٹر کہور بلوچ 65 سال کی عمرمیں انتقال کر گئے۔ ان کی وجہ شہرت 1986 میں انقلاب کا نشان قرار دینے کا نعرہ بنی۔

ڈاکٹر کہور بلوچ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کسی محفل میں وہ کبھی فالتو بات نہیں کرتے تھے(تصویر: نیشنل پارٹی فیس بک پیج )

بلوچستان کے مشہور دانشور اور سیاسی رہنما ڈاکٹر کہور بلوچ 65 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے سے 25 نومبر کو کراچی میں انتقال کر گئے۔

ان کی وجہ شہرت 1986 میں حامی سیاسی کارکنوں کی جانب سے انہیں ’انقلاب‘ کا نشان قرار دینے کے نعرے کی وجہ سے رہی۔

اس تحریر میں ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جا رہی ہے۔ 

یہ 1986 کا دور ہے جب بلوچ طلبہ کی سیاست عروج پر تھی۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی قیادت ڈاکٹر یاسین بلوچ کر رہے تھے، جنہوں نے چیئرمین بننے کے بعد ایک پریس کانفرنس کی۔ 

کوئٹہ میں رہنے والے پرانے سیاسی کارکن اسلم بلوچ کہتے ہیں کہ یہ پریس کانفرنس مقامی سیاست میں ایک ’نئی تبدیلی‘ کا باعث بنی اور دھڑے بندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 

ڈاکٹر یاسین بلوچ نے سیاسی قیادت سے، جس میں سردار عطااللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری شامل تھے، اپیل کی کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں تو بی ایس او اس کا حصہ بنے گی۔

یہیں سے ایک نوجوان قیادت اور مختلف سوچ رکھنے والے ڈاکٹر کہور بلوچ نے اختلاف کرتے ہوئے اپنے راستے الگ کر لیے۔ 

اسلم بلوچ بھی اس وقت طلبہ سیاست کا حصہ تھے، جنہوں نے یہ حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ پریس کانفرنس اس وجہ سے تاریخ کا حصہ ہے کہ اس کے بعد بی ایس او میں مختلف دھڑے بننا شروع ہوئے۔ اس وقت جب تنظیم کے دو دھڑے بن گئے ایک ڈاکٹر کہور کے ساتھ اور دوسرا مخالفت کر رہا تھا۔

اسلم بلوچ نے بتایا کہ یہ وقت تھا جب نعرہ لگتا تھا کہ ’انقلاب‘ کے تین نشان رازق جالب اور کہور خان جبکہ مخالف کہتے تھے کہ سی آئی اے کے تین نشان رازق جالب اور کہور خان۔ 

’جب میں طلبہ سیاست کر رہا تھا تو میں جونیئر تھا اور ڈاکٹر کہور بلوچ بی ایس او کے نائب چیئرمین اور ڈاکٹر یاسین بلوچ چیئرمین تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بی ایس او چند سال  قبل یعنی 1984 میں متحد ہو گئی تھی لیکن اس پریس کانفرنس کے بعد اختلافات شدید ہوتے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی گئی کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ دست و گریبان ہو گئے۔ 

بعد میں ڈاکٹر کہور بلوچ نے بی ایس او سہب کے نام سے نئی تنظیم بنائی اور اس کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ ان کا نظریہ تھا کہ بلوچ سیاست کو فرسودہ روایتی ڈگر سے ہٹا کر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سیاست کرنا چاہیے۔ 

اسلم بلوچ کہتے ہیں کہ اس وقت نظریاتی کارکنوں کی اکثریت ڈاکٹر کہور کے ساتھ تھی۔ انقلاب کا نعرہ اس نظریے کے تحت لگ رہا تھا کہ ڈاکٹر کہور سیاست کو نظریاتی فکری خطوط پر استوار کریں گے، جو کارکنوں کی خواہش تھی۔ 

یاد رہے کہ بعد میں رازق بگٹی اور حبیب جالب اپنی راہیں الگ کر کے افغانستان چلے گئے تھے۔

حبیب جالب آخر میں بلوچستان نیشنل پارٹی سے منسلک ہوئے جنہیں 2010 میں ان کے گھر کے قریب فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔

رازق بگٹی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف کے دور میں صوبائی حکومت کے ترجمان تھے۔ انہیں بھی کوئٹہ میں 2007 میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ 

اسلم بلوچ کہتے ہیں کہ بی ایس او کی اس تقسیم نے بلوچستان میں طلبہ کے مابین کشت و خون کا ماحول پیدا کیا، جس سے طلبہ اور عوام میں مایوسی پھیل گئی۔ 

اس دوران سابق صدر ضیا الحق اچانک ہوائی جہاز میں ہونے والے دھماکے کی زد میں آ گئے جس کے بعد پاکستان میں 1988 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو نواب اکبر خان بگٹی کی قیادت میں بلوچستان نیشنل الائنس بنایا گیا جو مضبوط اتحاد بن گیا اور اس نے کامیابی حاصل کر کے حکومت بنائی۔ 

انہوں نے بتایا کہ اس دوران ڈاکٹر کہور خان اور ان کے ساتھی زیرِ زمین چلے گئے۔ حبیب جالب اختر مینگل کے ساتھ  مل گئے جبکہ رازق بگٹی نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

یہی وقت تھا جب ڈاکٹر کہور خان نے پبلک سروس کمیشن سے امتحان پاس کر کے سرکاری ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

اسلم بلوچ کے بقول: ڈاکٹر کہور کے سرکاری ملازمت میں آنے کے بعد وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور آخر میں سیکریٹری کےعہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ 

سرکاری ملازمت کا فیصلہ 

ڈاکٹر کہور خان کا تعلق تربت سے 30 کلومیٹر دور مشرق میں واقع انتہائی پسماندہ علاقے شاپک سے تھا۔ اس علاقے سے کافی پڑھے لکھے لوگ نکلے۔  

تاہم دوسری جانب حالیہ شورش سے یہ علاقہ کافی متاثر ہوا اور اب بھی متاثر ہے۔ 

اسلم بلوچ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کہور سے سیاست چھوڑنے اور سرکاری ملازمت کے حوالے سے کبھی واضح بات نہیں ہوئی البتہ ایک بار پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم جیسے لوگوں کے لیے معاشی مسائل بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔ 

نئی سیاسی جماعت 

ڈاکٹر کہور کے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دوبارہ سرگرم ہوئے۔ انہوں نے سیاسی رہنماؤں اور ساتھیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔

اس دوران یہ بازگشت سنائی دی کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیں۔

اسلم بلوچ نے بتایا کہ یہ بات سامنے آئی تھی مگر عملی طور پر ایسا نہیں تھا۔ کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر کہور کی قیادت میں سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ 

’یہ تمام افواہیں اس وقت دم توڑ گئیں جب ڈاکٹر کہور نے نیشنل پارٹی کو ترجیح دی اور 26 مارچ، 2021 کو باقاعدہ طور پر اس میں شامل ہو گئے۔‘ 

کہور بلوچ نے اس وقت طلبہ سیاست میں حصہ لیا جب یہاں طلبہ سیاست کے رہنما پڑھنے اور دنیا کی تمام تنظیموں اور سیاسی تحریکوں کے بارے میں علم رکھتے تھے۔

اسلم بلوچ نے بتاتے ہیں کہ سیاست کے علاوہ ڈاکٹر کہور خان پڑھے لکھے انسان اور دانشور ہونے کے باعث مختلف ادبی سرگرمیوں اور دانش ورانہ خیالات رکھنے والے حلقہ احباب سے قربت رکھتے تھے۔

ان کے حلقہ احباب میں ادیب، دانشور، لکھاری اور پرانے سیاسی کارکن شامل ہوتے تھے۔ 

ریٹائرمںٹ کے بعد وہ سیاسی کارکنوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور مختلف فورمز پر انہیں سیاست کے حوالے سے آگاہ کرتے تھے۔

اس کا اہتمام نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا جاتا تھا۔ انہیں تمام مغربی، مسلم مفکرین کی آرا اور خیالات کے حوالے سے آگاہی تھی۔

وہ اکثر نوجوانوں کو کہتے تھے کہ ایسے سوال کریں کہ روزانہ کچھ نیا سیکھنے کو ملے۔ 

ایک اور سیاسی کارکن ناصر سہرابی نے ڈاکٹر کہور کے دور کو دیکھا تھا۔ ان کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر سے ہے۔

ناصرسہرابی کہتے ہیں کہ انہیں عروج اور پہچان بی ایس او بنانے اور اس کی قیادت سے ملی۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس وقت نویں جماعت کا طالب علم تھا اور میں نے دیکھا کہ ایک ایسے لیڈر ہیں جن کی تقریر اور اسے سننے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ یہ رہنما ڈاکٹر کہور تھے جنہیں کرشماتی رہنما بھی کہا جاتا تھا۔‘ 

ناصر سہرابی نے بتایا کہ ڈاکٹر کہور نے زیادہ تر وقت کراچی میں گزارا اور ان کی گھر کی بیٹھک سیاسی کارکنوں کا مرکز تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بی ایس او بھی یہاں فعال تنظیم بنی۔ 

انہوں نے بتایا کہ جب 1986 میں جب بی ایس او تقسیم ہونا شروع ہوئی تو اس کے بعد مزید دو دھڑے بن گئے۔

ایک دھڑا بی ایس او پجار کہلایا اور دوسرا بی ایس او سہب تھا جس کی قیادت ڈاکٹر کہور نے کی۔ 

ناصر سہرابی کہتے ہیں کہ اس وقت 1988 میں جب پروگریسو یوتھ موومنٹ بنی (جو بعد میں سیاسی جماعت پاکستان نیشنل موومنٹ بنی) تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوئی، جو اس وقت ڈاکٹر کہور کے حمایتی تھے۔ 

جب 1988 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو ڈاکٹر کہور نے رکن صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔

بعد میں فیصلہ ہوا کہ پروگریسو یوتھ موومنٹ کے کارکن پاکستان نیشنل پارٹی، جو میرغوث بخش بزنجو کی جماعت تھی، کو ووٹ نہیں دیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دوران ڈاکٹر کہور کو انتخابات سے دستبردار کرانے کا فیصلہ کیا گیا، جسے بعد میں انہوں نے قبول کر لیا لیکن گوادر کے سیاسی کارکنوں نے تسلیم نہیں کیا۔

انہوں نے انتخابات میں نائب امیدوار جس کے کاغذات ڈاکٹر کہور کے ساتھ جمع ہوئے تھے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 

یہ امیدوار عابد رحیم سہرابی تھے، جنہوں نے اس وقت ڈاکٹر کہور کی جگہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب امیدوار کے مقابلے میں صرف چند ہزار ووٹ سے پیچھے رہے۔ 

ناصر سہرابی نے بتایا کہ 1990 کی دہائی میں بلوچستان کی طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں اختلافات کے باعث دھڑے بندیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔

پروگریسو یوتھ موومنٹ کو پاکستان نیشنل موومنٹ بنا کر سیاسی جماعت بنا دیا گیا۔ یہ تنظیم بھی بعد میں دو حصوں میں بٹ گئی۔ 

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کہور نے جب بی ایس او کے نائب چیئرمین کی حیثیت سے ڈاکٹر یاسین بلوچ کے فیصلے سے اختلاف کیا تو راستے اسی وقت سے الگ ہوگئے تھے، جس کا نتیجہ بعد میں نئے دھڑے بی ایس او سہب کی صورت میں سامنے آیا اور کہور خان اس کے چیئرمین بنے۔ 

ناصر سہرابی کہتے ہیں کہ یہ وقت ڈاکٹر کہور کے لیے بہت برا ثابت ہوا، سیاسی اختلافات پرتشدد بھی ہوئے لیکن انہوں نے اس کا مقابلہ انتہائی جوان مردی سے کیا۔

وہ ہمیشہ فرنٹ پر رہے۔ ’اس وقت ہم پمفلٹ چھاپتے تھے اور رہنماؤں کی بات کو آڈیو ٹیپ کیسٹ کے ذریعے پہنچاتے تھے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ضلع گوادر اور اس کے دیگر ملحقہ علاقوں میں ڈاکٹر کہور بہت شہرت رکھتے تھے۔ جب حالات خراب تھے تو یہاں نوجوانوں نے ان کی حفاظت کی۔ نوجوانوں کے علاوہ گھروں کی خواتین بھی ان کے لیے دعا گو رہتی تھیں۔ 

ناصر کے بقول: کہور خان نے سندھ سے بی ڈی ایس کیا تھا، اس لیے ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتا تھا۔   

اپنے ہیروز کی قدر نہیں

لباس کے حوالے سے وہ شروع میں بلوچی شلوار قمیض اور جب کبھی کسی تقریب میں جاتے تو تھری پیس سوٹ زیب تن کر کے جاتے تھے۔

ان کا مطالعہ انتہائی وسیع تھا۔ وہ بلوچی زبان میں مضامین بھی لکھتے تھے۔

معروف لکھاری اور مختلف کتابوں کے مصنف آغا گل سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے ہیروز کی قدر کرنے والے نہیں، نہ ہی ہمیں ان کے بارے میں معلومات ہیں۔ 

آغا گل نے بتایا کہ ڈاکٹر کہور سے ’میری واقفیت ان کی ملازمت کے بعد ہوئی جب وہ نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے۔ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ ہمیشہ آئیڈیاز پر بات کرتے تھے۔‘ 

’ان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کسی محفل میں وہ کبھی فالتو بات نہیں کرتے تھے۔ جب ان سے کوئی سوال ہوتا تو اس کا جواب انتہائی مدلل انداز میں دیتے۔‘

آغا کے بقول: ’ہر قسم کی تنقید سننے کے بعد میں نے کبھی ڈاکٹر کہور کو غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ مخالفین کی بات کو توجہ سے سنتے تھے۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ عموماً بہت سے لوگ تقریر سے قبل نوٹس لے کر خطاب کرتے ہیں۔ میں خود بھی یہی کرتا ہوں لیکن ڈاکٹر کہور خان نے کبھی نوٹس لے کر کبھی خطاب نہیں کیا۔ وہ نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ تبدیلی لانے کے لیے نظام میں شامل ہونا ضروری ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر کہور نوجوانوں کو کہتے ہیں کہ اپنی شناخت بنیں یہ جان لیں کہ وہ کون ہیں۔ خوش لباس تھے۔ جو ان کی سنجیدگی کا مظہر تھا۔ میں نے انہیں قوم اور وطن سے محبت کرنے والا بندہ پایا۔ 

راقم نے ڈاکٹر کہور سے ایک بار رابطہ کرکے انٹرویو کے لیے وقت مانگا تھا لیکن چونکہ وہ اس وقت سرکاری ملازمت کررہے تھے اور ان کے ریٹائرمنٹ کے دن بھی قریب تھے۔

انہوں نے فون پر کہا کہ وہ چونکہ اسلام آباد میں ہیں کوئٹہ آکر ان سے بات کریں گے۔ تاہم بعد میں انہوں نے رابطہ نہیں کیا۔ جو انٹرویو کے بہانے ملاقات کا سوچا تھا وہ ادھورا ہی رہ گیا۔

ڈاکٹر کہوربلوچ کا انتقال ہارٹ اٹیک کے باعث ہوا۔ وہ ان دنوں کراچی میں تھے۔ ان کی میت کو ان کے آبائی علاقے شاپک میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست