بھارتی حکومت سے تمغہ لینے والے کشمیری بیٹے کی لاش کے لیے دربدر

قتل کیے جانے والے محمد عامر کے والد محمد لطیف کو حکومت جموں و کشمیر نے 2005 میں ایک عسکریت پسند کو پتھر سے زخمی کرنے اور اس کی چھینی ہوئی رائفل سے اسے ہی ہلاک کرنے پر بہادری کا ایوارڈ دیا تھا۔

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے 190 کلومیٹر جنوب میں تھاٹرکھا گول نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں ایک خاندان اپنے 22 سالہ بیٹے عامر احمد کے قتل پر ماتم کر رہا ہے۔

عامر احمد گذشتہ ماہ کی 15 تاریخ کو سری نگر میں ایک متنازع فوجی آپریشن میں تین دیگر افراد کے ساتھ مارے گئے تھے۔

بھارتی حکام نے ان افراد کو شمالی کشمیر کے علاقے ہندواڑہ میں ان کے آبائی علاقوں سے دور ایک قبرستان میں خفیہ طور پر دفن کر دیا تھا۔

اس خفیہ تدفین نے وادی کشمیر میں مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جو مشتبہ آپریشن میں مارے جانے والے افراد کی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان بھارتی پولیس کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں جن میں انہیں عسکریت پسند قرار دیا گیا تھا۔ خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ معصوم شہری تھے جن کو بہیمانہ طور پر بھارتی فورسز نے قتل کیا تھا۔

ہلاک ہونے والوں میں سری نگر کے علاقے بازولہ سے تعلق رکھنے والے شاپنگ سینٹر کے مالک 48 سالہ ڈاکٹر مدثر گل، 40 سالہ ڈینٹل سرجن، رئیل سٹیٹ بزنس مین اور عامر احمد شامل ہیں جو ڈاکٹر مدثر کے دفتر میں بطور ملازم کام کرتے تھے۔

بھارتی پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’عامر غیر ملکی عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے اور وہ خود بھی ایک عسکریت پسند تھے۔‘

دو افراد کے اہل خانہ نے لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے سری نگر میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بڑھتے ہوئے احتجاج اور غم و غصے کے بعد بھارتی حکام نے دو شہریوں کی لاشیں قبر کشائی کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیں، جن کی بعد ازاں روایتی اور مذہبی طور طریقوں کے مطابق آبائی مقامات پر تدفین کر دی گئی۔

عامر کے اہل خانہ اس واقعے پر صدمے میں ہیں۔ ان کے والد محمد لطیف اپنے بیٹے کے قتل کے بعد سے سکون سے نہیں بیٹھے جنہوں نے اپنے مقتول بیٹے کی لاش کا مطالبہ کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ سے کئی ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے محمد لطیف نے کہا: ’جب میں نے سنا ہے کہ میرا بیٹا ’انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا ہے تو میں نے دیگر افراد کے ساتھ سری نگر کا سفر کیا، جہاں مجھ سے کہا گیا کہ میرا بیٹا پہلے ہی دفن کیا جا چکا ہے اور ہمیں گھر واپس جانا چاہیے۔ جب پورے خاندان اور رشتہ داروں کو عامر کے قتل کا علم ہوا تو میں نے ان سے کہا کہ پرامن رہیں اور کسی احتجاج کا سہارا نہ لیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد لطیف کو حکومت جموں و کشمیر نے 2005 میں ایک عسکریت پسند کو پتھر سے زخمی کرنے اور اس کی چھینی ہوئی رائفل سے اسے ہی ہلاک کرنے پر 2012 میں بہادری کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا تھا، جو انہیں دو سال بعد ملا۔ 

بھارتی فوج کی طرف سے بھی تعریفی سند حاصل کرنے والے لطیف کہتے ہیں کہ ’میرے خاندان کو گولیاں بھیجی گئیں۔ ہم 2011 میں یہاں واپس آنے سے پہلے دوسری جگہ ہجرت کرگئے تھے، پھر حکومت نے مجھے یہاں سکیورٹی فراہم کی۔ میں یہاں جنگ لڑ چکا ہوں۔ اب میرا بیٹا عسکریت پسند کیسے ہو گیا؟ وہ میرے بیٹے کی لاش واپس کر دیں۔‘

گھر کے ایک تاریک کمرے کے اندر ماں اور بہن موبائل فون پر عامر کی تصویریں دیکھ رہی ہیں جب کہ عامر کی بڑی بہن محمودہ بیگم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہمیں ہمارے بھائی کی لاش بھی واپس نہیں کر رہے۔ ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے؟ ہم اپنے بھائی کے خلاف تحقیق کے مخالف نہیں لیکن کم از کم اس کی میت تو ہمیں دے دیں۔‘

عامر کے والد محمد لطیف کہتے ہیں: ’یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہم نے ان (بھارتی حکومت) سے تمغے اور تعریفیں حاصل کیں اور پھر ہمارے ساتھ یہ ہو گیا۔ ایک عام شہری کیا کرے گا؟ یہ سب انسانیت کے خلاف ہے کہ ایک ملازم کو عسکریت پسند قرار دے دیا جائے۔ میں اپنے بیٹے کی لاش واپس لانے کے لیے لڑتا رہوں گا۔‘

عامر کو ان کے آبائی گھر سے تقریباً 300 کلومیٹر دور عسکریت پسندوں کے لیے مختص قبرستان میں دفن کیا گیا ہے جہاں گذشتہ دو سالوں سے بھارتی حکام مشتبہ عسکریت پسندوں، ان کے مبینہ ساتھیوں اور فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے شہریوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کی بجائے بے نشان قبروں میں دفن کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا