پہاڑوں کے گمنام ہیرو

عالمی سطح تو دور کی بات پاکستان میں کتنے لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ فضل علی کے پاس اعزاز ہے کہ وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو تین بار سر کیا ہے۔

31 جولائی 1954 کو غروب آفتاب کے وقت کے ٹو پہلی بار اطالوی کوہ پیماؤں نے سر کی، یکم اگست 2004 کو پاکستان پوسٹ آفس نے پچاس سالہ تقریبات کا آغاز پانچ روپے مالیت کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرنے سے کیا (فائل تصویر: اے ایف پی)

کوہ پیمائی کی دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کو کوئی نہیں جانتا۔ یہ خاموشی سے کوہ پیماؤں کے لیے رسیاں لگتے ہیں، اور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ وہ کیمپ فور تک رسیاں لگاتے ہیں اور کئی بار کوہ پیما کے ہمراہ چوٹی بھی سر کرتے ہیں لیکن ان کا نام کوئی نہیں جانتا۔

یہ ہیں پہاڑوں کی اونچائی کے پورٹرز۔ ان کی زندگی پہاڑوں کے گرد گھومتی ہے، ان کو پہاڑوں سے محبت ہے اور ان کی روزی روٹی ان پہاڑوں سے جڑی ہے۔ ان کے بغیر پہاڑ سر کرنا نہایت دشوار ہے لیکن اس کے باوجود ان کے کام کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔

عالمی سطح تو دور کی بات پاکستان میں کتنے لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ فضل علی کے پاس اعزاز ہے کہ وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو تین بار سر کیا ہے۔ دوسرے پورٹرز کی طرح جو اپنی جان پر کھیلتے ہیں ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔

غیر ملکی کوہ پیماؤں کی چکا چوند کے سامنے ان پورٹرز کی کامیابیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ فضل علی بھی ان پورٹرز کی طرح ہیں جو اپنی کامیابیوں پر رشک کرتے ہیں لیکن ان کو افسوس ہوتا ہے کہ ان کی کامیابیوں اور کاوشوں کے بارے میں صرف ان کو یا دیگر پورٹرز ہی کو معلوم ہے۔

فضل علی نے دو دہائیاں پورٹرز کی خدمات انجام دیتے ہوئے روٹ کی منصوبہ بندی کی، سامان اٹھایا اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کے لیے کھانے بنائے۔ انھوں نے بغیر اضافی آکسیجن کے 2014، 2017 اور 2018 میں کے ٹو سر کی۔

پاکستان میں زیادہ تر اونچائی کے پورٹرز تین علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، سدپارہ، ہوشے اور شمشال۔ یہاں کے پورٹرز اپنی قوت برداشت اور مشکل ترین پاڑی علاقوں کے راستے معلوم ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

غیر ملکی کوہ پیما جب آتے ہیں اور ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں تو بلند و بالا دعوے کرتے ہیں۔ بڑح بڑے وعدے کرتے ہیں لیکن چوٹی پر کھڑا کوہ پیما تمام وعدے بھول جاتا ہے اور کئی بار تو کوہ پیما چوٹی پر پورٹر کے ساتھ تصویر بھی نہیں لیتا بلکہ الٹا پورٹر سے کہتا ہے کہ اس کی تصویر کھینچے۔

نیپال کے پورٹرز(شرپا) کے مقابلے میں پاکستانی پورٹرز کو فراہم کی گئی مراعات ناکافی ہیں۔ سنہ 2014 میں ایورسٹ پر 16 شرپا کی ہلاکت کے بعد شرپاز نے منظم ہو کر اپنے لیے مراعات کی مہم چلائی جس کے نتیجے میں ہر شرپا کی 12700 ڈالر کی لائف انشورنس کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی پورٹرز کی انشورنس محض دو لاکھ روپے ہوتی ہے۔

حادثہ ہونے کی صورت میں نیپالی شرپا کے ریسکیو کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ پاکستانی پورٹرز کے لیے یہ سہولت میسر نہیں ہے۔

سنہ 2008 میں کے ٹو پر پیش آنے والے بدترین حاثے میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے جن میں شمشال سے تعلق رکھنے والے دو پورٹرز بھی تھے۔ ان میں ایک فضل کریم تھے جو فرانسیسی کوہ پیما کے ہمراہ کے ٹو سے نیچے اتر رہے تھے، ان کی لاش نہیں ملی۔

فضل کریم کارخانے کے مالک تھے اور مالی طور پر قدرے مستحکم۔ ان کی اہلیہ ان کو منع کرتی تھی کہ پورٹر کے طور پر نہ جائیں لیکن شمشال کے لوگوں کو پہاڑوں سے محبت ہے۔ فضل کریم کے مرنے کے بعد ان کی بیوہ کو فیکٹری بیچنی پڑی کیونکہ جس کمپنی نے ان کے شوہر کی خدمات حاصل کی تھیں اس نے اور نہ ہی غیر ملکی کوہ پیماؤں نے مڑ کر ان کو پوچھا۔

ایک جرمن کوہ پیما کرسٹیئن فلیڈ نے شمشال پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستانی پورٹرز کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے اور منظم ہو کر یونین بنائیں جس کے ذریعے اپنے مسائل کے حل کے لیے کام کریں۔

مشورہ تو اچھا دیا ہے جرمنی کی کوہ پیما نے۔ اب دیکھیے کہ نیپال میں شرپا کو چوٹی سر کرنے کا بونس ملتا ہے جو کہ ڈیڑھ ہزار ڈالر ہے۔ یہ بونس اس کانٹریکٹ میں لکھا ہوتا ہے جو کوہ پیماؤں کو بھیجا جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی کوہ پیماؤں کے لیے اس قسم کا بونس نہیں ہے اور اگر کوئی دیتا ہے تو اپنی مرضی سے دیتا ہے۔

اس کے علاوہ اب غیر ملکی کوہ پیما اپنے ساتھ شرپا لے کر آتے ہیں اور پاکستانی چوٹیاں سر کرتے ہیں جب کہ پاکستانی پورٹرز کو نیپال جا کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

گیارہ دسمبر عالمی پہاڑوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں نہ صرف دنیا کی دوسری نلند ترین چوٹی کے ٹو ہے بلکہ یہ پہاڑ سب سے مشکل ہے اور اسی لیے اس کو دی سیوج ماؤنٹین بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں 14 آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں میں سے پانچ چوٹیاں پاکستان میں واقع ہیں۔ ان میں کے ٹو سمیت دی کِلر ماؤنٹین نانگا پربت، براڈ پیک، گشربرم ایک اور گشربرم دو شامل ہیں۔ خوبصورت نظاروں اور بلند و بالا پہاڑوں کے باعث پاکستان میں کوہ پیمائی کی صنعت کو فروغ ملا ہے۔ اور دہشت گردی کے خاتمے کے بعد زیادہ سے زیادہ غیر ملکی پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غیر ملکی کوہ پیما اگر بلند و بالا چوٹیاں سر کرنے آ رہے ہیں تو کئی سیاح کم اونچائی اور کم دشوار گزار پہاڑوں کا رخ کر رہے ہیں۔ کوہ پیمائی کی صنعت کا اہم جزو اونچائی کے پورٹرز ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ان پورٹرز کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا جائے۔

سب سے پہلے کسی بھی غیر ملکی ٹیم کے لیے یہ لازمی قرار دیا جانا چاہیے کہ وہ پاکستانی پورٹر ہی کی خدمات حاصل کریں اور غیر ملکی پورٹر لانے کی اجازت نہ دی جائے۔

یہ درست ہے کہ شمشال ہو یا سدپارہ یا ہوشے ان کے لوگ پیدائشی بہترین کوہ پیما ہوتے ہیں لیکن پھر بھی تکنیکی تربیت ضروری ہے۔ ان کو ٹریننگ دی جائے۔ دہائیوں سے غیر ملکی کوہ پیماؤں نے شرپا کو تربیت دی ہے لیکن پاکستانی پورٹرز کو یہ موقع میسر نہیں ہوا۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا تربیتی ادارہ نہیں ہے جہاں پورٹرز کو کوہ پیمائی کی تربیت اور تعلیم دی جائے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ