گمشدہ بچوں کو والدین سے ملانے میں زندگی وقف کرنے والے بزرگ

لاڑکانہ کے 80 سالہ انور علی کھوکھر نے اپنی زندگی کے 33 سال لاپتہ بچوں کو ان کے والدین تک پہنچانے اور خواتین کو پناہ دینے میں صرف کر دیے ہیں۔

سندھ کے ضلع لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے انور علی کھوکھر 33 سال سے گمشدہ بچوں کو نہ صرف ان کے والدین سے ملانے بلکہ سینکڑوں خواتین کو پناہ دے کر ان کے ورثا تک بھی پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔

وہ خدمت معصوم ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ چلاتے ہیں اور آج بھی سندھ بھر سے لوگ لاپتہ بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے ہیں جو کہ بعد میں ان کے ورثا کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

لاڑکانہ کے علاقے اللہ آباد کی پسماندہ کچی بستی کے رہائشی 80 سالہ انور علی کھوکھر بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 33 سال لاپتہ بچوں اور ضرورت مند خواتین کی مدد میں گزار دیے ہیں۔ اس دوران انہوں نے 18 ہزار سے زائد لاپتہ بچوں کو ان کے والدین تک پہنچایا ہے اور عدالت سے رجوع کرنے کے بعد سینکڑوں خواتین کا قانونی طریقے سے ان کے ورثا سے تصفیہ بھی کروایا۔

ان کا کہنا تھا: ’نیت صاف ہو تو مراد حاصل ہے۔ اسی وجہ سے وہ بچے اپنی ماں تک پہنچ جاتے ہیں اور مجھے سکون ملتا ہے کہ میں خدمت گار ہوں۔‘

انور علی کھوکھر کو انسانیت کے لیے ان کی خدمات پر 2003 میں صدارتی تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ لمحہ ان کے لیے انتہائی قابل فخر تھا کیونکہ ایوارڈ تقریب میں تاخیر سے پہنچنے کے باوجود جب ان کا نام اور ان کے کام کے متعلق تقریب کے شرکا کو بتایا گیا تو سب ان کے لیے احترام میں کھڑے ہوگئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انور علی کھوکھر پیشے کے اعتبار سے حجام تھے اور دو دہائیوں تک وہ اسی پیشے کے ذریعے بیوی بچوں کی کفالت کرتے رہے۔

ان کی دکان لاڑکانہ شہر کے وسط میں قائم مشہور درگاہ قائم شاہ بخاری کے قریب تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن ان کے پاس ایک دوست آئے اور قائم شاہ بخاری مسجد کے تعمیراتی کام اور انتظامات کے حوالے سے معاونت مانگی تو وہ ان کے ساتھ چل دیے۔

مسجد تعمیر ہوجانے کے بعد کبھی کبھار علاقہ مکین گمشدہ بھٹکے ہوئے بچے ملنے پر مسجد لے آتے اور ان سے بچوں کے متعلق اعلانات کرواتے تھے۔

اس دوران جب کسی گمشدہ بچے کا وارث مل جاتا تو بچہ حوالے کر دیا جاتا تھا اور جب کوئی وارث نہیں ملتا تھا تو وہ اس بچے کو اپنے گھر لے جاتے تھے اور والدین کے ملنے تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ اس بچے کی بھی دیکھ بھال کرتے۔ اس طرح گمشدہ بچوں کا ان تک پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

انور علی کھوکھر نے 1988 کے بعد 17 سال مسجد قائم شاہ بخاری کے کام کاج میں گزارے اور بطور روزگار وہ حجام کی دکان چلا کر اپنا گزر بسر کرتے رہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ وقت نکال کر گھر میں موجود گمشدہ بچوں کو اپنی سائیکل پر بیٹھا کر شہر بھر میں گھومتے اور آوازیں لگاتے تھے کہ کیا کوئی اس گمشدہ بچے کے والدین کو پہچانتا ہے؟

اس دوران وہ اتنی مقبولیت حاصل کر چکے تھے کہ لاڑکانہ سمیت گرد و نواح سے بھی لوگ گمشدہ بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے تھے۔

بیٹے کے جوان ہونے اور برسر روزگار ہونے پر انور علی کھوکھر حجام کی دکان بند کرکے مکمل طور انسانیت کی خدمت میں جت گئے اور یہ کام اب بھی جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان