ترکی: خراب معیشت پر رپورٹنگ کرنے والے تین یوٹیوبر گرفتار

گرفتار صحافی ترک کرنسی کی قدر میں غیر معمولی کمی کے باعث اقتصادی مایوسی کے شکارعام لوگوں کے سڑکوں پر انٹرویوز کرتے تھے۔

24 نومبر، 2021 کو استنبول میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک شخص کو پولیس اہلکار گرفتار کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ترکی نے اتوار کو یوٹیوب ویڈیوز بنانے والے متعدد آزاد صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے.

یہ صحافی ترک کرنسی کی قدر میں غیر معمولی کمی کے باعث اقتصادی مایوسی کے شکار عام لوگوں کے سڑکوں پر انٹرویوز کرتے تھے۔

ترک ذرائع ابلاغ نے اتوار کو طلوع آفتاب سے قبل متعدد چھاپہ مار کارروائیوں کے بارے میں بتایا، جن میں حکام نے تین صحافیوں کو حراست میں لیا۔

گرفتار شدگان نے ترک شہریوں کے ساتھ نام نہاد ’مین آن دی سٹریٹ‘ انٹرویوز پوسٹ کیے جن میں لوگوں نے اپنی زندگیوں پر معاشی پریشانیوں کے اثرات کے بارے میں شکایت کی۔

اس طرح کی آوازیں زیادہ تر ان نشریاتی اداروں کی جانب سے سامنے نہیں آتیں جن پر بڑی حد تک ریاست یا ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے حامیوں کا کنٹرول ہے۔

گرفتار شدہ تینوں صحافیوں میں سے ایک محمد اویونکو نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’ہم صحافی ہیں اور ہم سڑک پر موجود لوگوں کی آوازیں محلات میں سنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’وہ ہر روز ہمیں تشدد کرنے والوں، حراستوں اور گرفتاریوں سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔‘

بعد ازاں جنوبی صوبے انتالیہ میں زیر حراست تمام صحافیوں کو رہا کرتے ہوئے انہیں نظر بند رکھنے کا حکم دیا، جس کے ذریعے انہیں مزید رپورٹنگ سے مؤثر طور پر روک دیا گیا۔

مقامی خبروں کے مطابق ان گرفتاریوں کا حکم صدر اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے ایک سرکردہ قانون ساز مکاہٹ بیرنسی کی جانب سے درج کرائی گئی شکایت کے بعد دیا گیا تھا۔

 ایسا ترک صدر کی تقریر کے ایک دن بعد ہوا جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ سوشل میڈیا ’جمہوریت کے لیے بنیادی خطرہ‘ ہے۔

انہوں نے ہفتے کو ایک تقریر میں مبینہ طور پر کہا ’ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا چینلز کے تیزی سے پھیلاؤ کے باعث جھوٹ اور تیار کردہ خبروں کے ساتھ غلط معلومات تیزی سے پھیلتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ جہاں کنٹرول کا کوئی مؤثر طریقہ کار نہیں، وہاں ان چینلز سے پھیلنے والی ایسی خبروں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تاریک ہو جاتی ہیں۔

مبینہ طور پر ترکی کی پارلیمنٹ اردگان کے اتحاد کے زیر کنٹرول ایک قانون تیار کر رہی ہے تاکہ حکومت جنہیں آن لائن جعلی خبروں اور غلط معلومات کے طور بیان کرتی ہے ان کے پھیلاؤ کو جرم قرار دیا جا سکے۔

پریس کی آزادی کے حامیوں کو اس اقدام نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ مخالفت کرنے والے صحافیوں کو مزید جیل بھیجنے کے لیے کسی بھی قوانین کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اتوار کو ایک ترک نیوز ویب سائٹ’140جرنوس‘ نے یوٹیوب اور دیگر مقامات پر ایک گھنٹہ طویل دستاویزی فلم نشر کی جس میں حکومت اور منظم جرائم کے درمیان تعلقات کا الزام لگایا گیا، خاص طور پر جلاوطن تسلیم شدہ مجرم سیدات پیکر، جن کی سنسنی خیز یوٹیوب ویڈیوز نے اس سال کے اوائل میں انقرہ کی سیاسی اشرافیہ کو پریشان کیا اور 2023 کے انتخابات سے قبل اے کے پی کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

ترک معیشت کئی سال سے دباؤ کا شکار ہے۔ بڑھتی ہوئی افراط زر اور مسلسل بے روزگاری نے ترکوں کی بچت اور قوت خرید کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ ہفتے خاص طور پر سخت رہے ہیں۔

طیب اردگان کے شرح سود کو کم رکھنے کے دباؤ سے ترک کرنسی لیرا کو شدید نقصان پہنچا ہے، یہ ان کے عقیدے کے مطابق سود کے جڑ سے خاتمے کے لیے دہائیوں سے جاری جنگ کا حصہ ہے۔

پیر کو ایک ڈالر تقریباً 14 لیرے کے برابر تھا جو اب تک کی کم ترین سطح تھی اور لیرا کی قدر گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تقریباً 40 فیصد کم ہوئی ہے۔

سیدات پیکر تعلقات اور بدعنوانی کے دیگر الزامات، گرتی ہوئی کرنسی اور قیمتوں میں ڈرامائی اضافے نے طیب اردگان، اے کے پی اور اس کی انتہائی دائیں بازو کی نیشنل موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے اتحادی شراکت دار کی حیثیت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔

 ترکی میں قابل اعتماد ذریعے ’اکم ایجنسی‘ کی جانب سے دو ہفتے قبل کیے گئے ایک سروے میں اے کے پی اور ایم ایچ پی کو مجموعی طور پر 35 فیصد حمایت حاصل ہے جبکہ مخالفین کے ممکنہ اتحاد کو 54 فیصد اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو 10 فیصد حمایت حاصل ہے۔

بعض اوقات غیر پیشہ ورانہ اور ناقص تدوین کے ساتھ یوٹیوبرز کی جانب سے سڑکوں پر کیے جانے والے انٹرویوز میں عام ترک اپنی مایوسیوں کا اظہار کرتے ہیں یا معیشت کی حالت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

ایک حالیہ ویڈیو میں سکول جانے کی عمر کے کئی لڑکے اپنی تعلیم کے لیے کتابوں کی قیمت کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔

رپورٹرز سانس فرنٹیئرز کے ترکی کے نمائندے ایرول اونڈروگلو نے کہا کہ وہ ویڈیو جاری کرنے سے پہلے کچھ ایڈیٹنگ فلٹرز اور ایسی معلومات کا استعمال کر سکتے ہیں جو انہیں مجرمانہ شکایات سے بچا سکتا ہے۔ لیکن سڑک سے لوگوں کے خدشات جاننے میں ایک واضح عوامی فائدہ ہے۔

صحافی بھی توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور حکومت نواز آوازوں کو بھی ایک پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔

ایک شخص نے 20 نومبر کو کیندین محبیر کی جانب سے شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ تمام غیر ملکی ریاستیں ہمارے ساتھ دشمنوں کی طرح سلوک کر رہی ہیں جس سے حکومتی لائن کی عکاسی ہوتی ہے کہ کرنسی میں کمی ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔

دوسرے شخص نے کہا کہ’ لوگ تکلیف اور دکھ اٹھا رہے ہیں۔غیر ملکی طاقتوں کے بارے میں یہ بات چھوڑ دیں، ’سونے کے ایک ٹکڑے کی قیمت کم سے کم اجرت سے دوگنی ہو گئی ہے۔‘

اونڈروگلو نے کہا سیاسی ماحول ایسا ہے کہ حکومتی حامی اور مخالفین دونوں ملک کی گہری پریشانیوں کو کم بیان کرتے ہیں۔

انہوں نے دی انڈیپینڈنٹ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب حکومت کے حامی لوگوں کا گلی میں انٹرویو لیا جاتا ہے تو بھی حکومت کے حق میں ان کی دلیل قابل یقین نہیں ہوتی۔

 ’سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایک گہرے مالی بحران، سیاسی بدعنوانی اورہر قسم کے غلط کام ہیں۔ حکومت کے حق میں یا اس کے خلاف، سڑکوں پر ان تمام سرگرمیوں کو خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت نواز ذرائع ابلاغ میں مثبت بات چیت کے باوجود ملک کی مالی مشکلات مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔

 پیر کے روز ترکی کے وزیر خزانہ نوردین نیبتی نے ایک انٹرویو میں سرمایہ کاروں اور عام ترکوں کو معیشت کے بارے میں پریشان کن بیان سے خبردار کیا جو کہ یقین دہانی سے کم تھا۔

انہوں نے نیوز ویب سائٹ ہیبرترک کو تبصروں میں بتایا کہ’اگر ہم جیت گئے تو ہم مل کر جیت جائیں گے۔ اگر ہم ہار گئے تو ہم ایک ساتھ ہار جائیں گے۔‘

مالیاتی تجزیہ کاروں نے ان کے اس بیان کو لیرا پر مزید دباؤ کے طور پر لیا۔

ملک کی مرکزی حزب اختلاف پیپلز ری پبلکن پارٹی (سی ایچ پی) کے اراکین سمیت حزب اختلاف کے عہدیداروں نے کہا کہ یوٹیوبرز کی گرفتاریوں نے موجودہ حکومت کی کمزوریوں اور ناکامیوں کو اجاگر کیا ہے جو بظاہر ایسی معاشی پالیسی لانے سے قاصر ہے جو لیرا کی قدر میں تیزی سے کمی کو روک سکے

سی ایچ پی کے رکن پارلیمنٹ فیتھی اخیل نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یوٹیوبر نوجوانوں کو حراست میں لینا بے بسی ہے جو سڑکوں پر انٹرویوز کے ذریعے ہماری قوم کی پریشانیوں کو سنتے ہیں اور پریشان حال شہری کو مائیکروفون دیتے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا