امریکی شرائط: امارات کے ہتھیاروں کے معاہدے پر مذاکرات معطل

امریکی وزیر خارجہ نے معاہدے کے لیے شرائط کی واضح تفصیلات نہیں دیں ہیں، مگر کہا ہے کہ واشنگٹن اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اسرائیل کی ’عسکری برتری‘ برقرار رہے۔

جرمنی کے شہر برلن میں  25 اپریل 2018 کو ایک ایئر شو میں موجود امریکی ایف 35 طیارہ (روئٹرز)

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے واشنگٹن کی سخت شرائط کی وجہ سے امریکی جنگی سازوسامان کی خریداری کے 23 ارب ڈالر کے معاہدے پر بات چیت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اب بھی اسے ایف 35 طیارے فروخت کرنے کو تیار ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی) کے مطابق واشنگٹن میں اماراتی سفارت خانے نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ 23 ارب ڈالر کے اس معاہدے پر ’بات چیت معطل‘ کردے گا جس کے تحت امریکہ نے یو اے ای کو 50 ایف 35 طیارے، مسلح ڈرونز اور دیگر جنگی سازوسامان فروخت کرنا تھا۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے آخری سال میں طے پانے والے اس معاہدے میں 18 جدید ڈرون سسٹم اور فضا سے فضا اور فضا سے زمین تک مار کرنے والا اسلحہ بھی شامل ہے۔

یو اے ای کے حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ جاننے کا اصرار کہ ایف 35 طیاروں کو کس طرح اور کہاں استعمال کیا جاسکتا ہے، متحدہ عرب امارات کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔

اماراتی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکہ جدید دفاعی تقاضوں کے لیے متحدہ عرب امارات کا ترجیحی فراہم کنندہ ہے اور مستقبل میں ایف 35 طیاروں کے لیے بات چیت دوبارہ ہوسکتی ہے۔‘

دوسری جانب امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اب بھی یو اے ای کو جنگی طیارے فروخت کرنے کو تیار ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یو اے ای نے فروخت کے لیے واشنگٹن کی سخت شرائط کی وجہ سے معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔  

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدھ کو کہا: ’ہم آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔۔۔ اگر اماراتی بھی یہی چاہتے ہیں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ واشنگٹن نے کیا شرائط رکھی ہیں، تو انہوں نے واضح تفصیلات نہیں دیں، مگر کہا کہ واشنگٹن اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اسرائیل کی’عسکری برتری‘ برقرار رہے۔ 

انہوں نے کہا: ’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خطے میں کسی شراکت دار کو کوئی بھی ٹیکنالوجی فروخت یا منتقل کرنے سے پہلے ایک جامع نظر ثانی کی جائے۔‘

امریکہ کا اتحادی اسرائیل تاریخی طور پر عرب ممالک کے ایف 35 طیارے حاصل کرنے کے خلاف رہا ہے، کیونکہ وہ خطے میں فوجی برتری کا خواہاں ہے۔ 

معاہدے پر مذاکرات میں تعطل امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا تھا۔ اخبار کے مطابق امریکہ ایسی شرائط پر زور دے رہا تھا جن سے یقینی بنایا جا سکے کہ ایف 35 طیارے چینی جاسوسی کا شکار نہ ہوں۔ 

اے پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’انتظامیہ مجوزہ فروخت پر کاربند ہے۔ یہاں تک کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مشاورت جاری رکھیں گے کہ طیاروں کی حوالگی سے پہلے، دوران اور بعد میں یو اے ای کی ذمہ داریوں کے متعلق باہمی افہام و تفہیم ہو۔‘

محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے العربیہ انگلش سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہتھیاروں کی مجوزہ فروخت کے معاہدے سے متعلق ’تصفیہ طلب امور کے حل‘ کے لیے کام کیا جاسکتا ہے۔

مذکورہ عہدیدار کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے حال ہی میں دبئی ایئر شو میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ یو اے ای کو ایف 35 طیاروں، ایم کیو 9 بی اور دیگر اسلحے کی مجوزہ فروخت کے لیے پرعزم ہے۔‘

دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی ساختہ فوجی سازوسامان کے استعمال کے بارے میں امریکی تقاضے ’پوری دنیا کے لیے ہیں، ان پر بات نہیں ہو سکتی اور یہ صرف متحدہ عرب امارات کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔‘

جان کربی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ امریکی شراکت داری کسی ایک ہتھیار کی فروخت سے زیادہ سٹریٹجک اور پیچیدہ ہے۔

متحدہ عرب امارات طویل عرصے سے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور رواں سال کے اوائل میں افراتفری میں ہوئے امریکی انخلا کے دوران افغانستان سے فرار ہونے والے افراد کے داخلے کی اجازت دے چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا