پاکستان کے وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار مخدم خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے نئی پالیسی تیار کی ہے جس کے تحت نیا کاروبار کرنے والوں کو بلا ضمانت قرضے دیے جائیں گے جب کہ نقصان ہونے کی صورت میں اس کا بوجھ حکومت اٹھائے گی۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ پریس کانفرنس میں خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ کل وفاقی کابینہ نے مربوط ایس ایم ای پالیسی منظور کی ہے، جس کے تحت نئے کاروبار کرنے والوں کو قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں سمال اور میڈیم 10 لاکھ مینوفیکچررز کام کر رہے ہیں، جب کہ پاکستان میں ایک تخمینے کے مطابق اس قسم کے 50 لاکھ کاروبار کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں 3500 سے چار ہزار لارج سکیل اینٹرپرائزز کام کر رہی ہیں۔ جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اپنی پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی میں ایس ایم ایز کے ذریعے کاروبار شروع کرنے والے کے اخراجات کو کم کیا گیا ہے جس کے بعد زیرو ٹائم ٹو سٹارٹ اپ سے کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔ خسرو بختیار کے مطابق یہ پالیسی پنجاب اور بلوچستان میں نافذ ہوچکی ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی اس پالیسی کو جلد نافذ کر دیا جائے گا۔
Federal Minister for information & Broadcasting @fawadchaudhry and Minister for Industries and Production @KhusroMakhdum addressed a news conference in #Islamabad
— PTV News (@PTVNewsOfficial) December 15, 2021
Watch Full
https://t.co/Nd9KMlBM2w pic.twitter.com/D8FxhB4RaM
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کاروبار کے لیے این او سیز کے دفاتر سے جان چھوٹ جائے گی۔ خسرو بختیار کے مطابق رواں سال کے بجٹ میں حکومت نے مینوفیکچر سیکٹرز کے ٹیکس کے لیے ادائیگی کم کردی ہے۔ جس کی آمدنی دس کروڑ سے کم ہے وہ 0.25 فیصد اور جن کی آمدنی دس سے 25 کروڑ ہے ان کے لیے ٹیکس 0.5 کردیا ہے، اور یہ فکس ہوگا۔
خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ قرضوں کے حوالے سے آسان فنانس سکیم لا رہے ہیں۔ جس میں وفاقی حکومت اور بینک بغیر ضمانت کے ایک کروڑ تک کا قرضہ دیں گے اور اگر کاروبار میں نقصان ہوتا ہے تو وہ حکومت اور کمرشل بینکس برداشت کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار نے سندھ حکومت سے بھی اس پالیسی میں حصہ ڈالنے کی درخواست کی۔
خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ ایس ایم ای کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں لو رسک، میڈیم اور ہائی رسک میں رکھا گیا ہے۔ ان کے مطابق لو رسک میں ٹرانسپورٹ، پبلک سروس سیکٹر، ہول سیل کو شامل کیا گیا ہے جس کے لیے این او سی کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کہ میڈیم رسک میں لیدر، آٹو پارٹس، کٹلری، سپورٹس وغیرہ شامل ہیں، اس کو 30 روز کے لیے این او سی دیا جائے گا جب کہ ہائی رسک میں بوائلرز اور کیمیکلز وغیرہ سے متعلق کاروبار کو شامل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمرشل سیکٹر کو بجلی کے استعمال پر 30 فیصد چھوٹ دی جارہی ہے اور ہم صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ کمرشل سے انڈسٹریل کنکشن میں آئیں اور اس سے مستفید ہوں۔
اس قرض پر شرح سود کے حوالے سے کیے جانے والے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان قرضوں پر سود کی شرح نو فیصد ہو گی۔
پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم ملکی معیشت میں بہت بڑی تبدیلی لائے ہیں۔
ان کے مطابق اس سے قبل ہماری پوری معیشت کا انحصار ایکسپورٹس پر تھا۔ دبئی اور سنگاپور کی طرح ہم درآمدات پر گزارا نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو ایک مضبوط صنعتی بنیاد کی ضرورت ہے۔