خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے!

سعودی عرب کی قیادت میں او آئی سی جس طرح افغان عوام کی مشکلات کے حل میں کردار ادا کر رہی ہے کسی اور ادارے نے اتنی تندہی سے یہ کام نہیں کیا۔

لاہور میں منعقد ہونے والی دو روزہ (22-24 فروری 1974) اسلامی سربراہ کانفرنس کا بنیادی مقصد بیت المقدس کی آزادی، مقبوضہ عرب علاقوں کی بازیابی، فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی اور مشرق وسطیٰ کے بحران کے مستقل اور پائیدار حل کے لئے عالم اسلام کے سارے وسائل اور قوتوں کو جمع کر کے متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنا تھا( اے ایف پی فائل)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

 

اسلامی تاریخ میں اگر کسی ایک جگہ پر پوری مسلم دنیا کے سب سے زیادہ سربراہان ایک وقت میں اکٹھے ہوئے ہیں تو یہ اعزاز 1974 میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے دوسرے سربراہی اجلاس کی میزبانی کے موقع پر پاکستان کے شہر لاہور کو حاصل ہوا۔ اس کانفرنس کے بعد پاکستان، اسلامی دنیا میں ایک لیڈر بن کر ابھرا۔

لاہور میں منعقد ہونے والی دو روزہ (22-24 فروری 1974) اسلامی سربراہ کانفرنس کا بنیادی مقصد بیت المقدس کی آزادی، مقبوضہ عرب علاقوں کی بازیابی، فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی اور مشرق وسطیٰ کے بحران کے مستقل اور پائیدار حل کے لئے عالم اسلام کے سارے وسائل اور قوتوں کو جمع کر کے متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنا تھا۔

کانفرنس کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا رہا کہ تاریخ ایک نئے موڑ پر آ چکی ہے۔ مسلم ملکوں کو ایسے وسائل حاصل ہو گئے ہیں کہ اب وہ متحد ہو کر مشترکہ اقدامات کے ذریعے استعماری طاقتوں کے استحصال اور اسرائیلی جارحیت کے چیلنج کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ وہ حالات سے اثر پذیر ہونے کے بجائے حالات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

بلا مبالغہ 1974 کی اس کانفرنس میں 50 کے قریب اسلامی سربراہان شریک ہوئے جن میں شاہ ایران خود نہیں تھے بلکہ ان کے وزیر اعظم شریک ہوئے تھے۔

اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) جسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا تھا، اسے اسلامی سربراہ کانفرنس میں فلسطینی ریاست کی نمائندہ تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد یاسر عرفات کو اقوام متحدہ میں خطاب کی دعوت دی گئی اور فلسطین کی نمائندہ تنظیم کو تسلیم کیا گیا اور یاسر عرفات ایک ہاتھ میں زیتون کی شاخ (اور دوسرے میں) بندوق لے کر شریک ہوئے تھے۔

47 برس بعد پاکستان جب ایک مرتبہ پھر سے مسلم دنیا کے نمائندہ پلیٹ فارم کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرنے جا رہا ہے تو ایسے میں او آئی سی کے سود و زیاں کا سرسری جائزہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔

درد دل کے ساتھ سر جوڑ کر مسئلہ فلسطین کے حل کی راہیں تلاش کرنے والے مسلم رہنماؤں نے ماضی میں پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم قرار دلوایا۔ بعد میں اس کی مادی ومعنوی امداد کے لیے اپنے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔

یاسر عرفات اپنی مزاحمتی طبع اور سیاسی بصیرت کے باوجود بد عہد یہودیوں کی طرف سے دکھائے گئے امن کے سراب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے تھک گئے، حتیٰ کہ اسرائیل کو پرامن بقائے باہمی کی ضمانت دینے کے بعد بھی ان کی بیت المقدس میں تدفین کی خواہش دل میں ہی رہ گئی۔

فلسطین کے قضیے سے متعلق ایک نیا منظر نامہ آج پھر ہمارے سامنے ہے، جس میں مزاحمت کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔ ماضی میں یاسر عرفات کی قیادت میں ہونے والی انتفاضہ کو دہشت گردی قرار دلوایا گیا تو آج بھی اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کو برطانیہ، امریکہ اور یورپی ملک دہشت گرد قرار دلوا کر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔

او آئی سی کی تشکیل سے دنیا پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اسلامی ممالک بھی ایک مضبوط گروپ ہیں اور ایک پلیئر کا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی خود فریبی ہو گا دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے سارے متحرک کردار اگلے چند برسوں کے اندر پُراسرار طریقے سے ختم کر دیے گئے۔

پاکستان میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے ایک ہی برس بعد اس میں شریک ہونے والے عالم اسلام کے اہم رہنما سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد بنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمان کو ان کے اپنے ہی فوجیوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

مصر کے انوار السادات کو قاہرہ میں ہونے والی ایک فوجی پریڈ کے دوران گولی مار دی گئی۔ تنظیم آزادی فلسطین کے گوریلا کمانڈر یاسر عرفات کو 2004 میں زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا۔ لیبیا کے مرد آہن کرنل معمر قذافی 2011 میں طویل اقتدار کے بعد عوامی غیظ وغضب کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے۔

دوسرے اسلامی سمٹ کی صدارت کرنے والے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1979 میں ایک متنازع عدالتی فیصلے کے تحت تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عجیب اتفاق ہے کہ وفاقی دارلحکومت میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلہ دیش) کی علیحدگی کی گولڈن جوبلی (16دسمبر 1971) کے موقع پر ہو رہا ہے۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس (1974)سے تین برس پہلے ہی پاکستان کو اپنے مشرقی بازو کی علیحدگی کا چرکہ لگا تھا۔

مشرق وسطیٰ کے دیرینہ مسائل کے حوالے سے طے کردہ مقاصد کے حصول میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کس قدر کامیاب رہی اس کا جائزہ جس تفصیل کا متقاضی ہے، کالم کی تنگی داماں کے باعث اسے کسی دوسرے موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

تاہم یہ ایک حقیقت ہے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس نے جنوب مشرقی ایشیا سے متعلق متنازعہ سیاسی امور کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔ لاہور سمٹ کے جلو میں ہونے والی سفارتی کوششوں (یا دباؤ)  کے تحت پاکستان نے بنگلہ دیش کو الگ ملک کے طور پر تسلیم کیا اور یہی وجہ تھی کہ شیخ مجیب الرحمان نے بطور سربراہ حکومت کانفرنس میں شرکت کی۔

افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی درخواست پر سعودی عرب نے او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر کو اسلام آباد میں طلب کر رکھا ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار کے مطابق ’کانفرنس کا بینادی مقصد افغانستان میں انسانی المیے کا جائزہ لینے، افغان عوام کی مدد کرنے اور افغانستان کے لیے کسی بھی قسم کی امداد حاصل کرنا ہے۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اجلاس افغان عوام کی مدد کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کا باعث بنے گا۔ اس حوالے سے ’رکن ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے امداد کی فراہمی کی یقین دہانی سب سے اہم مقصد ہے۔‘

ہمسایہ ملک میں سر اٹھانے والے انسانی بحران سے بچنے کی خاطر پاکستان پوری کوشش کر رہا ہے کہ اس اجلاس کو بامقصد اور کامیاب بنایا جائے۔ اسی وجہ سے رکن ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ، اہم مالیاتی عالمی اداروں اور افغان المیے کی بنیاد روس سمیت پی فائیو ممالک کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ سعودی عرب کی قیادت میں او آئی سی جس طرح افغان عوام کی مشکلات کے حل میں کردار ادا کر رہی ہے کسی اور تنظیم نے اتنی تندہی سے کام نہیں کیا۔ شاہ سلمان ریلیف سینٹر نے ریاض اور کابل کے درمیان امدادی سامان کی ترسیل کے فضائی پل قائم کر رکھا ہے۔

افغانستان کو اس وقت معاشی امداد سے زیادہ وہاں پر طالبان کی قیادت میں بننے والی سیاسی حکومت کی عالمی سطح پر قبولیت کا چیلنچ درپیش ہے۔ ماضی میں اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم کو پاکستان سے متعلق دلخراش واقعے کو بھلا کر اسے اسلامی دنیا سے تسلیم کروانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو آج ایک مرتبہ پھر اسی فورم کی سیاسی افادیت کا امتحان ہمارے سامنے ہے۔

افغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لیے جتنے بیدار مغز رہنما پاکستان کے دارلحکومت میں جمع ہو رہے ہیں، ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے او آئی سی کے پیش آئند اجلاس میں افغانستان میں بننے والی نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دینا چاہے۔

جنگ زدہ افغانوں کو امداد اور خیرات کا لالی پاپ دے کر ان کے مسائل کے حل کی امید سے بڑی خود فریبی اور دھوکہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ امید ہے کہ او آئی سی افغانستان کو معاشی تباہی اور عالمی سیاسی تنہائی سے نجات دلانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ