امریکی اخبارنیو یارک ٹائمز میں ہفتے کو شائع ہونی والی خبر میں پینٹاگون کی نئی دستاویزات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی فضائی حملوں کی بنیاد ’انتہائی ناقص خفیہ معلومات‘ تھیں، جن کے نتیجے میں کئی بچوں سمیت ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اخبار کا کہنا ہے کہ دستاویزات میں شہری جانی نقصان کی 13 سو رپورٹس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس سے حکومت کی اس تصویر کشی پر چوٹ پڑتی ہے کہ یہ جنگ ٹھیک نشانے پر گرنے والے بموں سے لڑی گئی۔
اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شفافیت اور احتساب کے وعدے باقاعدگی سے پورے نہیں ہو رہے تھے۔
رپورٹ جس کے بارے میں اخبار کا کہنا ہے کہ یہ پہلا حصہ ہے، میں کہا گیا ہے کہ ’فراہم کیے گئے ایک بھی ریکارڈ میں غلطی کی تحقیقات یا انضباطی کارروائی کا ذکر موجود نہیں ہے۔‘
اگرچہ نیویارک کی طرف سے رپورٹ کیے گئے متعدد واقعات پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں تاہم اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری اموات کو ’بے حد کم‘ بتایا گیا یعنی کم از کم کئی سو کم اموات بتائی گئیں۔
نگرانی میں غلطیاں:
اخبار کی رپورٹ میں جن تین واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں 19 جولائی 2016 کو امریکی سپیشل فورسز کی بمباری تھی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ان میں شمالی شام میں داعش کے ٹھکانے رکھنے والے تین علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 85 جنگجو مارے گئے لیکن اس کے برعکس مرنے والے 120 کاشت کار اور دوسرے دیہاتی تھے۔
ایک اور مثال 2015 میں عراق کے شہر رمادی میں کیے گئے حملے کی ہے جس میں ایک شخص کو ’نامعلوم بھاری شے‘ گھسیٹ کر داعش کے ٹھکانے میں لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک جائزے سے پتہ چلا کہ یہ ’چیز‘ اس بچے کی لاش تھی جو حملے میں مارا گیا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق نگرانی کی ناقص یا ناکافی فوٹیج کا اکثر نتیجہ غلط ہدف کو نشانہ بنانے کی ہلاکت خیز ناکامیوں کی صورت میں نکلا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حال ہی میں امریکہ کو یہ دعویٰ واپس لینا پڑا کہ اگست میں کابل کی ایک سڑک پر ڈرون حملے میں تباہ کی گئی گاڑی میں بم تھے۔ اس حملے کے متاثرین میں ایک خاندان کے 10 افراد تھے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حملوں میں بچ جانے والے بہت سے شہری معذور ہو گئے جنہیں مہنگے علاج کی ضرورت تھی لیکن ایک درجن سے بھی کم متاثرین کو ادائیگیاں کی گئیں۔
جب اخبار نے امریکی سینٹرل کمان کے ترجمان کیپٹن بل اربن سے اس حوالے سے تبصرے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ’دنیا میں بہترین ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود غلطیاں ہوتی ہیں۔ خواہ ان کی بنیاد نامکمل معلومات ہوں یا دستیاب معلومات کا غلط تجزیہ اور ہم غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس قسم کے نقصان سے بچنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔ ہم ہر قابل بھروسہ معاملے کی چھان بین کرتے ہیں اور ہمیں معصوم شہریوں کی ہلاکت پر افسوس ہے۔‘
فضا سے نہ دکھائی دینے والے شواہد:
سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے آخری سالوں میں مشرق وسطیٰ میں امریکی فضائی مہم میں تیزی آئی کیونکہ بظاہر نہ ختم ہونے والی زمینی جنگوں کے لیے عوامی حمایت کم ہو گئی تھی۔
اوباما کا کہنا تھا اکثر دور سے کنٹرول کیے جانے والے بغیر پائلٹ کے طیاروں کا استعمال ’تاریخ کی سب سے درست فضائی مہم‘ ہے جس کے ذریعے شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم رکھا جا سکتا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق رپورٹ مرتب کرتے ہوئے اس کے نمائندوں نگاروں نے زیادہ ہلاکتوں کے سو سے زیادہ مقامات کا دورہ کیا اور زندہ بچ جانے والے متعدد رہائشیوں اور موجودہ اور سابق امریکی اہلکاروں کے انٹرویوز کیے۔
اخبار نے مارچ 2017 میں معلومات تک رسائی کی آزادی کی درخواستوں اور محکمہ دفاع اور سنٹرل کمانڈ کے خلاف دائر مقدمات کے ذریعے پینٹاگون کی دستاویزات حاصل کیں۔ ایک نئے مقدمے میں افغانستان کے ریکارڈز بھی طلب کیے گئے ہیں۔