’آذربائیجان کی حمایت کے باوجود پاکستان سے تعلقات چاہتے ہیں‘

2020 کے تنازع کے دوران پاکستان کا کہنا تھا کہ نگورنو کاراباخ پر وہ آذربائیجان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان آرمینیا کو تسلیم نہ کرنے والا واحد ملک ہے۔

صدر آرمینیا آرمین سارکیسیان نے کہا ہے کہ ان کے ملک کے فی الحال پاکستان کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اورحریف ملک آذربائیجان کی حمایت کے باوجود وہ پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق، آرمینیا کے صدر نے کہا: ’میں تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہوں، کیونکہ میں اس تصور سے نہیں آیا کہ اگر کوئی میرے حریف یا دشمن کی حمایت کرتا ہے تو مجھے اس سے بات نہیں کرنی چاہیے۔‘

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ  کے مسئلے پر اکتوبر2020 میں جنگ ہوئی تھی۔ آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان کے اس علاقے پر قبضے کے باعث پاکستان آرمینیا کو تسلیم نہ کرنے والا واحد ملک ہے۔

آذربائیجان کے ملٹری اتاشی کرنل مہمان نوروز نے 2020 اکتوبر میں کہا تھا کہ ’ترکی اور پاکستان آذربائیجان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، تاہم آرمینیا نے پروپیگنڈا کیا ہے کہ 30 ہزار پاکستانی فوجی اور ترک فضائیہ کے اہلکار جنگ میں شامل ہوئے۔‘

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے انہوں نے آرمینیا کے ساتھ جنگ میں پاکستان اور ترکی کے شامل ہونے کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔

عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے آرمینیا کے صدر آرمین سرگسیان نے کہا کہ ’ہم پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہم پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، یہ بالکل نہ سمجھ آنی والی بات ہے۔‘

صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں بات چیت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ یہ ہمیں کہاں لے جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’مجھے پاکستان کے ساتھ بات چیت اور بھارت کے ساتھ ہمارے گہرے اور اچھے تعلقات میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔‘

آرمینیا ایک مسیحی اکثریت رکھنے والا ملک ہے۔ آرمین سارکیسیان 4 نومبر 1996 سے 20 مارچ 1997 تک وزیر اعظم آرمینیا بھی رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ لندن میں 1998 سے ملک کے سفیر تھے۔

آذربائیجان کے ساتھ تنازع کے پس منظر میں آرمینیا کے صدر نے کہا: ’دوسری طرف (آذربائیجان اور ترکی کا حوالہ دیتے ہوئے) بعض اوقات اس (’مذہبی جنگ‘) کو اسلامی دنیا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن آرمینیا نے کبھی مسیحی ریاستوں سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘

انہوں نے کہا کہ’ یہ کبھی مذہبی جنگ نہیں تھی، آرمینیا کے بہت ساری ایسی ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جہاں اسلام ایک بڑا، واحد یا ریاستی مذہب ہے۔‘

اپنی بات کی وضاحت میں انہوں نے سعودی عرب اور مسلم ممالک کے متعلق انٹرویو میں کہا: ’میں سعودی عرب کے خدشات کو سمجھتا ہوں، کشیدگی کو دیکھتا اور سمجھتا ہوں، میں ایران اور گلف کو، ایران اور لبنان کو دیکھتا اور سمجھتا ہوں، سعودی عرب جو گلف میں کر رہا ہے میں اس پر بھی نظر ہے۔‘

آرمینیا کے صدر نے 1915-1916 کی نسل کشی سے بچ کر آنے والے آرمینیائی باشندوں کو پناہ فراہم کرنے میں خلیجی ریاستوں اور عرب دنیا کے کلیدی کردار کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’انہیں شام، لبنان، مصر، سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں میں گھر ملے،‘ انہوں نے کہا ’میں اس موقع پر ان اقوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اور مشرق وسطیٰ کی ان تمام ریاستوں، خاص طور پر عرب ریاستوں کے سربراہان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو ہمارے لیے بہت برادرانہ تھے۔‘

آذربائیجان اور آرمینیا تنازع

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ 2020 ستمبر کے آخر میں شروع ہوئی تھی اور جنگ بندی کی عالمی اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی افواج نے ٹینکوں، ہیلی کاپٹرز اور بھاری ہتھیاروں سے حملے کیے۔

آرمینیا اور آذربائیجان دونوں سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھے، لیکن سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد دونوں ملک آزاد ہوگئے، تاہم علیحدگی کے بعد نگورنوکاراباخ کے خطے کی ملکیت کے معاملے پر دونوں ملکوں میں تنازع پیدا ہوگیا۔

یہ علاقہ آذربائیجان کی جغرافیائی حدود کے اندر واقع ہے لیکن اس میں آرمینیائی نسل کے لوگ آباد ہیں۔عملاً یہ ایک آزاد علاقہ ہے اور آرمینیائی آبادی اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کا موقف

اس تنازع کے دوران پاکستان کا کہنا تھا کہ نگورنو کاراباخ کے حوالے سے آذربائیجان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور اسی وجہ سے آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان کے اس علاقے پر قبضے کے باعث پاکستان آرمینیا کو تسلیم نہ کرنے والا واحد ملک ہے۔

اس حوالے سے سابقہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ اپنے بیان میں کہہ چکے تھے کہ ’پاکستان نگورنو کاراباخ کے خطے میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سخت تشویش کا شکار ہے اور آذربائیجان کی شہری آبادی پر آرمینیائی فوج کی جانب سے گولہ باری قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نگورنو کاراباخ پر آذربائیجان کا موقف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قراردادوں کے مطابق ہے اور پاکستان اس کی حمایت کرتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا