قزاقستان: صدر کا ’دہشت گرد نما‘ مظاہرین پر گولیاں چلانے کا حکم

قزاقستان کے صدر نے کہا ہے کہ ملک میں جاری مظاہروں میں تشدد کے ذمہ دار ’بیرون ملک سے تربیت یافتہ دہشت گرد‘ ہیں اور انہوں نے فوج کو حکم جاری کیا ہے کہ ایسے عناصر کو بغیر وارننگ گولی مار دی جائے۔

مظاہروں میں گھری وسطی ایشیائی ریاست قازقستان کے صدر نے افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ ’ڈاکو اور دہشت گرد‘ نما مظاہرین سے نمٹنے کے لیے انہیں گولی مار کر ہلاک کرسکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر قاسم جومارت توقایف نے جمعے کو یہ حکم اس وقت جاری کیا جب ایک دن قبل ہی ہمسائے روس نے ملک گیر بغاوت کو روکنے کے لیے اپنی فوج بھیجی ہے۔

مرکزی شہر الماتی کی سڑکوں پر جمعے کی صبح سکیورٹی فورسز کا کنٹرول دکھائی دیا لیکن کئی دن کی بدامنی کے بعد بھی گولیوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ ان مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ عوامی عمارتوں کو توڑ پھوڑ اور آتشزنی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ٹی وی پر خطاب میں قزاق صدرقاسم جومارت توقایف نے جمعے کو کہا: ’عسکریت پسندوں نے ہتھیار نہیں ڈالے، وہ جرائم کرتے رہتے ہیں یا ان کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف جنگ کو آخری حد تک جاری رکھنا چاہیے۔ جو ہتھیار نہیں ڈالے گا وہ تباہ ہو جائے گا۔‘

انہوں نے کہا: ’ میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کو بغیر وارننگ کے گولی مارنے کا حکم دیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر نے سابقہ سویت یونین کا حصہ رہنے والی ریاست میں آزادی کے 30 سال بعد بدترین تشدد کی لہر کا ذمہ دار ’بیرون ملک سے تربیت یافتہ دہشت گردوں‘ کو قرار دیا۔

یہ مظاہرے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد رواں ہفتے قزاقستان کی حکومت کے خلاف شروع ہوئے جن میں وزارت دفاع کے مطابق، اب تک 26 مظاہرین اور 18 پولیس اور نیشنل گارڈز ہلاک ہوئے ہیں۔

قزاقستان کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ان مظاہروں میں اب تک 3700 گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔

ماسکو کی تیزی سے افواج کی تعیناتی سابق سوویت یونین کے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے کریملن کے اعادے کو ظاہر کرتی ہے۔

قزاقستان میں ان فوجیوں کو روس اور پانچ سابق سوویت اتحادیوں پر مشتمل اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم کے تحت بھیجا گیا ہے، اور روس کا کہنا ہے کہ وہ 2500 فوجی چند ہفتوں تک ملک میں رکھے گا۔

روسی نائب وزیر خارجہ الیگزینڈر گرشکوف نے کہا کہ ماسکو ’قازقستان کے لیے کھڑا ہے جیسے ایک اتحادی کو ہونا چاہیے۔‘

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ واشنگٹن روسی افواج کی تعیناتی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور یہ انسانی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی اور ’کسی بھی ایسی کارروائی پر نظر رکھے گا جو قازق اداروں پر قبضے کا پیش خیمہ ہو۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا