گڑ کی پیداوار نے مردان کی تاریخی شوگر مل کا وجود خطرے میں ڈال دیا

قیام پاکستان کے وقت مردان میں واقع ایشیا کی سب سے بڑی شوگر کہلانے والی پریمیئر شوگر ملز کے منیجر کے مطابق گنے کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے مل ایک دن چلتی ہے اور اگلے دن اسے بند کرنا پڑتا ہے، کیونکہ کاشت کار گڑ بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں گنے کے کاشت کار اپنی فصل شوگر مل کو دینے کی بجائے گڑ بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ گڑ کی قیمت زیادہ ہے جبکہ شوگر مل والے کاشت کاروں سے کم قیمت پر گنا خرید رہے ہیں۔

دوسری جانب شوگر مل مالکان کہتے ہیں کہ گنے میں کمی کی وجہ سے مل ایک دن چلتی ہے اور اگلے دن اسے بند کرنا پڑتا ہے۔ اگر انہیں ضرورت کے مطابق گنا ملے تو ملک میں چینی کے بحران میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

مردان میں واقع پریمیئر شوگر ملز بھی ایسی ہی ملوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس شوگر مل کی تعمیر پاکستان بننے سے پہلے شروع ہوئی اور اس نے اپنی پہلی کرشنگ 1949 میں کی تھی۔ پریمیئر شوگر ملز مردان اُس زمانے میں ایشیا کی سب سے بڑی شوگر مل تھی۔

پریمیئر شوگر ملز کے جنرل منیجر کین سلیم گرمانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ یہ مل تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک یونٹ میں گنے سے چینی بنائی جاتی ہے، دوسرے یونٹ میں چقندر سے چینی بنائی جاتی ہے اور اس کا تیسرا یونٹ ڈسٹلری بھی تھا، جہاں سپرٹ وغیرہ بنایا جاتا تھا۔

سلیم گرمانی نے بتایا: ’گنے کا سیزن ختم ہوتا ہے تو اس کے بعد چقندر کا سیزن شروع ہوجاتا ہے، جو تقریباً ایک یا ڈیڑھ مہینے تک چلتا ہے لیکن چقندر کے لیے بطور ایندھن گنے کی بگاس کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کافی سالوں سے ہم نے چقندر کی کاشت بند کی ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چقندر بھی چلے، لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمیں گنا وافر مقدار میں ملے اور ہمارے پاس بگاس بچے۔‘

ملز کو سیزن میں کتنا گنا درکار ہوگا؟

سلیم گرمانی کے مطابق: ’اگر ملز کو اب بھی چار لاکھ ٹن گنا میسر ہو جائے تو آٹھ لاکھ بیگ چینی بنا سکتے ہیں، جس سے چینی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور ٹیکس کلیکشن میں بھی یہ حکومتی خزانے کے لیے سودمند ہوگا۔‘

جنرل منیجر سلیم گرمانی نے بتایا کہ اس مل کو اگر صرف ضلع مردان میں پیدا ہونے والے گنے کا ایک چوتھائی حصہ بھی مل جائے تو یہ اپنی پوری کیپیسٹی پر چل سکتی ہے۔

’ضلع مردان میں آٹھ سے دس لاکھ ٹن گنے کی پیداوار ہوتی ہے جبکہ مل کی ضرورت چار لاکھ ٹن گنا ہے۔ اس وقت ہم چار پانچ اضلاع سے تھوڑا تھوڑا گنا خرید رہے ہیں، جو ٹرانسپورٹیشن کی وجہ سے بہت مہنگا پڑتا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ مل چلتی رہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک دن چلتی ہے اور ایک دن بند رہتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب گڑ کا کاروبار کرنے والے شیرگڑھ گڑمنڈی کے بیوپاری محمد اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گنے کے کاشت کار شوگر مل کو گنا دینے کے بجائے گڑ بنانے کو ترجیح دے رہے، کیونکہ گڑ کی قیمت زیادہ ہے جبکہ شوگر مل والے کاشت کار سے گنے کو کم قیمت پرلے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ضلع مردان میں ہزاروں گڑگانیاں ہیں جہاں سالانہ ہزاروں ٹن گڑ تیار کیا جاتا ہے جو نہ صرف یہاں فروخت ہوتا ہے بلکہ پنجاب تک جاتا ہے جبکہ چارسدہ اور پشاور کا گڑ تو افغانستان تک جاتا ہے۔

محمد اعجاز نے بتایا: ’ہماری گڑمنڈی میں گڑ کا کاروبار پورا سال چلتا ہے جبکہ گنے کا سیزن اکتوبر سے اپریل تک ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ابھی مارکیٹ میں 32 دڑی یعنی 115کلو بوری گڑ کی قیمت 20 ہزار سے زیادہ ہے اور اس کی نسبت شوگر مل میں بہت کم قیمت کاشت کار کو دی جاتی ہے۔

بقول اعجاز: ’آج کل تو مارکیٹ میں چینی ملا ہوا گڑ بھی موجود ہے، جہان چینی کو گنے کے جوس کے ساتھ ملا کر گڑ تیار کیا جاتا ہے۔‘

اس حوالے سے شوگر مل کے سلیم گرمانی نے بتایا: ’آج کل گڑگانیوں میں ہماری ہی چینی ہمارے ہی خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ چینی میں گنے کا رس مکس کرنے کے بعد گڑ تیار کر لیتے ہیں کیونکہ چینی سستی ہے۔ حکومت نے تو چینی پر کنٹرول کیا ہوا ہے لیکن گڑ پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور گڑ کا نرخ بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم قطعاً نہیں چاہتے کہ گڑگانیاں بند ہوجائیں کیونکہ اگر سارا گنا ملز کو سپلائی ہوجائے تو ہماری ملیں اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ سارا گنا کرش کرسکے۔ گڑگانیاں بھی چلائیں لیکن ملک کی پیداوار میں، چاہے وہ چینی کی شکل میں ہو یا قومی خزانے کی شکل میں اپنا کردار ادا کریں۔‘

جنرل مینجر نے مزید کہا کہ زمینداروں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ہمارے ملازمین کا روزگار اسی گنے سے وابستہ ہے اور جب یہ ملز گنا نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوجاتی ہیں تو یہ لوگ متاثر ہوں گے۔

انہوں  نے مزید بتایا کہ گڑ گانیاں چونکہ مقامی صنعت ہے تو وہ اس پر ٹیکس وغیرہ نہیں دیتے جبکہ ہمارے اوپر تو حکومت کی ڈیوٹی اور ٹیکسز بھی عائد ہوتے ہے تو ہمارے لیے ان کا مقابلہ کرنا بڑا مشکل تھا۔

سلیم گرمانی کے مطابق اب تک شوگر ملز تخت بھائی اور سلیم شوگر ملز چارسدہ بند ہوچکی ہیں۔ صرف دو شوگر ملیں باقی ہیں: ایک خزانہ شوگر ملز پشاور اور ایک پریمیئر شوگر ملز مردان۔ ’یہ بھی آخری دنوں میں ہیں، جن کا چلنا مشکل ہوگیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہم نے زمینداروں کے لیے نیا پروگرام شروع کردیا ہے، جس میں سود کے بغیر قرضے، کھاد اور اچھے قسم کے بیج بھی دیں گے تاکہ لوگ زیادہ پیداوار حاصل کریں اور ہمارے زمینداروں کے ساتھ اچھے تعلقات بھی استوار ہوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا