پیٹرول کی قیمت ریکارڈ سطح پر: لیکن مسئلے کا حل کیا ہے؟

قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں پیٹرول کا نرخ ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ماہرین اس کی متعدد وجوہات اور حل تجویز کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ( اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ہفتے کی رات پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد پاکستان میں پیٹرول کا نرخ (148.83 روپے فی لٹر) ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق 16 جنوری سے ہو گیا ہے۔

 سپر پیٹرول کی قیمت 3.01 روپے کے اضافے کے ساتھ 144.82 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر تقریبا 149 روپے ہو گئی ہے، جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) اور مٹی کے تیل (کیروسین آئیل) کے نرخ بالترتیب 141.62 اور 113.53 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 144.62 اور 116.48 روپے فی لیٹر ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی بلکہ ماضی میں ان نرخوں میں اضافہ یا تبدیلی بھی اتنی جلدی نہیں ہوا کرتی تھی۔ 

ملک کی سرکاری پیٹرولیم کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی ویب سائٹ پر موجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں کئی کئی مہینے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ جوں کے توں رہتے رہے۔ 

تاہم موجودہ حکومت میں ایک آدھ مرتبہ پیٹرول کی قیمت دس روپے فی لیٹر کے حساب سے بھی بڑھ چکی ہے۔

اسلام آباد کے 50 سالہ رہائشی مزمل شکور نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو انوکھے انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا:’یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ موٹر وے پر 140 کی رفتار سے گاڑی دوڑاتے ہیں اور باہر کی چیزیں تیزی سے پیچھے جاتے ہوئے بدلتی ہیں۔‘

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں، جو ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت بیک وقت کار فرما ہیں، اور نرخوں کے بڑھنے کا باعث بن رہی ہیں۔ 

بین الاقوامی قیمتیں 

ماہرین کے مطابق بین الاقوامی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، جس نے تمام پیٹرول درآمد کرنے والے ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 

کرونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیتیں منفی میں چلی گئیں تھیں، ایک سال سے ان میں بڑوھتی دیکھنے میں آئی ہے، اور اب دنیا میں ایک بیرل (159 لیٹر) پیٹرول 84.5 امریکی ڈالر میں بک رہا ہے۔ 

سابق وفاقی سیکریٹری پیٹرولیم ڈاکٹر گلفراز احمد کا کہنا تھا: ’کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پیٹرول کا نرخ بین الاقوامی منڈی میں 80 ڈالر سے اوپر جائے گا، اس کا اتنی تیزی سے اتنا بڑھ جانا سب کے لیے حیران کن ہے۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تقریبا ہر پٹرول درآمد کرنے والے ملک کے عوام اپنی حکومت سے نرخوں میں اضافے کے باعث شکایت کر رہے ہیں۔ 

آئیل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق ممبر (آئیل) ڈاکٹر ایم الیاس فاضل کا کہنا تھا کہ  موجودہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی نہیں دے رہی بلکہ اس کا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔  

’اسی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں کے بڑھنے سے ہمارے ہاں بھی پیٹرول مہنگا ہو رہا ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتیں پیٹرول کی قیمت خرید بڑھنے کے باوجود اس کا اثر عوام کو منتقل نہیں کرتی تھیں۔ 

آئی ایم ایف فیکٹر 

بعض ماہرین کے خیال میں تحریک انصاف حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ حالیہ معاہدے میں پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جس کے باعث نرخوں کو اتنی تیزی سے بڑھایا جا رہا ہے۔ 

ڈاکٹر ایم الیاس فاضل کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کی ایک شرط کے طور پر بند کی ہے۔ 

’آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی بند کی جائے تاکہ گردشی قرضوں کو کم کیا جا سکے، اور حکومت کو کرنا پڑ رہا ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کی پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کی وجہ سے گردشی قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں، جو آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ کم سے کم ہوں، بلکہ ختم ہو جائیں۔ 

ڈاکٹر گلفراز احمد کا خیال تھا کہ ماضی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سبسڈی نے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ’اب تو حکومت کے لیے خراب معیشت کے باعث سبسڈی دینا ممکن بھی نہیں ہے۔‘ 

تاہم وفاقی وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف حکومت ہر ممکن طریقے سے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے، اور اسی لیے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کم لاگو کیا جا رہا ہے۔

ہفتے کی رات کی گئی ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ پندرہ روز کے دوران عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کے برعکس پاکستانی عوام پر بوجھ کم ڈالنے کے لیے تحریک انصاف حکومت نے یہ نرخ صرف دو فیصد صرف بڑھائے۔

دوسری جانب چند روز قبل ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق چلا جاتا تو پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 180 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی ہوتی۔

ڈالر کی قیمت میں اضافہ 

 پاکستان میں معاشی بدحالی کے باعث اس کی کرنسی (پاکستانی روپیہ) کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ایک امریکی ڈالر کی اہمیت تقریبا 180 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ 

پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے سے درآمد کی جانے والی اشیا بھی مہنگی پڑنے لگ گئی ہیں، جن میں پیٹرولیم مصنوعات سر فہرست ہیں۔ 

ڈاکٹر گلفراز احمد کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے بیرون ملک سے منگوائی جانے والی ہر چیز کا نرخ بڑھے گا۔ ’حکومت تیل کی خریداری پر ڈالر خرچ کرتی ہے جو مہنگا ہے، تو ہمیں ایک بیرل پیٹرول خریدنے کے لیے زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔‘ 

اقتصادی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ پاکستان جیسے ملک میں ہر چیز کی قیمت میں زیادتی کا باعث بنتا ہے، اور پیٹرولیم مصنوعات کو اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ 

عام آدمی پر بوجھ 

ماہرین کے خیال میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کسی بھی معیشت میں تقریبا ہر سیکٹر پر اثر انداز ہوتا ہے، جبکہ اس کا آخری شکار عام آدمی ہی ہوتا ہے۔ 

ذیشان حیدر کا کہنا تھا: ’پیٹرولیم مصنوعات تقریبا ہر شعبے میں کسی نہ کسی شکل میں استعمال ہوتی ہیں، تو ظاہر ہے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہر چیز کی قیمت کو متاثر کرے گا۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ سے فیکٹریوں اور بجلی گھروں تک میں پیٹرولیم مصنوعات استعمال ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کا بہت بڑا انحصار پیٹرول اور ڈیزل پر ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی ایک بہت بڑی آبادی گھریلو استعمال کے لیے کیروسین آئیل (مٹی کا تیل) ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ 

ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ ملک میں گیس کی کمی کے باعث بھی پیٹرولیم مصنوعات پر اضافہ بڑھ رہا ہے، اور ایسا بڑے بڑے صنعتی نویٹس میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ 

’تو جب آپ کا اتنا زیادہ انحصار ہو پیٹرولیم مصنوعات پر تو ان کی قیمتوں میں اضافے سے انہیں استعال کرنے والے اپنی پراڈکٹس اور سروسز کے نرخ بڑھائے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔‘ 

تاہم ڈاکٹر گلفراز احمد کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے کسی پراڈکٹ یا سروس کی قیمت پر صرف 5 فیصڈ اثر پڑتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہر چیز کے نرخ کئی کئی گنا بڑھا دیے جاتے ہیں، جو بالکل مناسب نہیں ہے۔ 

’یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں بڑھنے سے پیداواری اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔‘ 

پیٹرول کی قیمت کا تعین  

حکومت بین الاقوامی منڈی سے ایک بیرل (159 لیٹرز) پیٹرول 84.5 امریکی ڈالر حساب سے خریدتی ہے، یوں ایک لیٹر پیٹرول اسے تقریبا آدھے ڈالر کا پڑتا ہے۔ 

پاکستان میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 178 روپے فرض کر لی جائے تو حکومت بین الاقوامی منڈی سے ایک لیٹر پیٹرول 94.5 روپے میں خرید رہی ہے۔ 

پاکستانی پاکستانی بندرگاہوں پر پہنچنے کے بعد اس قیمت (94.5 روپے) میں مندرجہ ذیل اخراجات اور ڈیوٹیز/ٹیکسز بھی لگائے جاتے ہیں۔ 

1۔ پورٹ اخراجات: سب سے پہلے بندرگاہ پیٹرولیم مصموعات پر اخراجات وصول کرتی ہیں، جو ڈاکٹر الیاس فاضل چوہدری کے مطابق پورٹ قاسم اور کیماڑی کے مختلف ہیں۔ 

2۔ بندر گاہ پر یا اس کے قریب آئیل ریفائنریز واقع ہوتی ہیں جن میں پیٹرولیم مصنوعات کو پراسس کیا جاتا ہے، اور اس کے اخراجات الگ ہوتے ہیں۔ ریفائنری سے نکلنے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کو ایکس ریفائنری قیمت کہا جاتا ہے۔ 

3۔ ریفائنری سے نکلنے کے بعد حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر ان لینڈ فریٹ ایکوالائیزیشن میکنیزم (آئی ای ایف ایم) کے نام سے ایک خرچہ ڈالتی ہے، جس کا مقصد پورے ملک میں قیمتیں یکساں رکھی جا سکیں۔ 

4۔ آئی ایف ایم کے اطلاق کے بعد حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی لاگو کرتی ہے۔ 

5۔ لیوی لگنے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات پر لگنے والے جنرل سیلز ٹیکس کا حساب کیا جاتا ہے۔ 

6۔ ان تمام اخراجات کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کو پورے ملک میں پہنچانے والی کمپنیاں بھی اپنا کمیشن چارج کرتی ہیں۔ 

7۔ پرچون فروخت کنندہ پیٹرول پمپ مالکان بھی اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔ 

ان تمام اخراجات، ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے لاگو ہونے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کو ایکس ڈپو سیل پرائس کہا جاتا ہے۔ 

یوں تحریک انصاف کی موجودہ وفاقی حکومت کو بین الاقوامی منڈی سے 94.5 روپے کے حساب سے حاصل ہونے والے ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 150 روپے مقرر کرنا پڑ رہی ہے۔ 

مسئلے کا حل کیا ہے؟ 

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر قابو پانے کے حل کے سلسلے میں ماہرین مندرجہ ذیل حل تجویز کرتے ہیں۔ 

1۔ ڈاکٹر گلفراز کا کہنا تھا پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے والے اکثر ممالک فیڈرل سٹیبالائزیشن فنڈ قائم کرتے ہیں، جس میں ان مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کی صورت میں تھوڑے سے زیادہ نرخ پر عوام پر بیچ کر پیسے رکھے جاتے ہیں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اور جب بین الاقوامی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو حکومتیں اس فنڈ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو سبسڈی دیتی ہیں۔‘ 

انہوں کے خیال میں پاکستان میں بھی قانون سازی کے ذریعے فیڈرل سٹیبیلائزئشن فنڈ کے قیام سے اس مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ 

2۔ ڈاکٹر الیاس فاضل کے خیال میں فرنس آئل کی پیداوار کو بہتر طریقے سے ریگولرائز کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں میں بے ہنگم اضافے کا مسئلہ بڑی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں فرنس آئل کی مانگ میں کمی آ رہی ہے اور پاکستانی ریفائنریز کو وہاں اپنا فرنس آئل کم قیمت پر فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔ ’کیوں نہ پاکستانی ریفائنریز وہی ڈسکاونٹ اپنے ملک میں دیں، اس طرح زیادہ فروخت کے باعث ریفائنریز کی سٹوریج گنجائش بھی بڑھے گی۔‘ 

3۔ تحریک انصاف کے رہنما احمد جواد کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کم کر کے ان کے نرخوں میں اضافے کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کم کرنے کے لیے پاکستان کو بجلی اور گیس کی پیداوار کو بڑھانا ہو گا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت