یوکرین تنازع: کیا 'قلعہ بند روس' نئی پابندیوں کے لیے تیار ہے؟

روس نے اس سے قبل 2014 میں یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا کے ساتھ الحاق کے تناظر پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران بھی مغربی پابندیوں کا سامنا کیا تھا جس سے روسی کرنسی روبل کی قدر زمین بوس ہو گئی تھی۔

صدر بائیڈن نے رواں ہفتے جب پوتن پر پابندیوں لگانے کا امکان ظاہر کیا تو انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ پابندیاں کیا ہوسکتی ہیں لیکن عام طور پر ان اقدامات میں کسی رہنما کے بیرون ملک ذاتی اثاثوں کو منجمد کرنا اور غیر ملکی بینکوں میں ان کے لین دین کو روکنا شامل ہے(تصاویر: اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن اور امریکہ کے اتحادی مغربی ممالک نے روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کی صورت میں ’بے مثال‘ اقتصادی پابندیوں کی سزا کا عندیہ دیا ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ یہ اقدامات کیا ہوسکتے ہیں اور ان کے روس اور اس کی معیشت پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟

واشنگٹن نے روسی صدر ولادی میر پوتن کے خلاف براہ راست پابندیوں لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ ایک بڑا علامتی اقدام ہے جو اس سے قبل لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور شام کے صدر بشار الاسد جیسے لوگوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔

صدر بائیڈن نے رواں ہفتے جب پوتن پر پابندیوں لگانے کا امکان ظاہر کیا تو انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ پابندیاں کیا ہوسکتی ہیں لیکن عام طور پر ان اقدامات میں کسی رہنما کے بیرون ملک ذاتی اثاثوں کو منجمد کرنا اور غیر ملکی بینکوں میں ان کے لین دین کو روکنا شامل ہے۔

اس دھمکی کے جواب میں کریملن نے کہا کہ یہ اقدام بے معنی ہوگا کیونکہ قوانین کے مطابق روسی حکام کے بیرون ملک اثاثے موجود نہیں ہیں اور یہ کہ اس علامتی اقدام سے یوکرین کے بحران پر سفارت کاری کو نقصان پہنچے گا۔

مغربی دارالحکومتوں میں زیر بحث ایک اور ممکنہ پابندی میں اس سے زیادہ نقصان دہ اقدام یعنی روسی بینکوں کے ڈالر میں لین دین پر پابندی عائد کرنا اور ماسکو کو بین الاقوامی بینکنگ ایکسچینج کے ایک اہم طریقہ کار یعنی SWIFT سے خارج کرنا ہےشامل ہے۔

ایران کو اسی طرح کی پابندیوں کی وجہ سے معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور روس کے معاملے میں اس کا تیل اور گیس کا اہم شعبہ بری طرح متاثر ہونے کی توقع ہے۔

ایک اور ممکنہ پابندی میں روس کو جرمنی سے ملانے والی متنازع Nord Stream 2 پائپ لائن کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔

اس پائپ لائن کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد روس سے یورپ کو قدرتی گیس کی سپلائی دوگنا ہونے کا امکان تھا لیکن پابندی کی صورت میں یہ روس کی توانائی کی برآمدات کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔

اس کے علاوہ روس پر اہم ٹیکنالوجیز کی برآمدات پر پابندی لگانے کا امکان بھی زیر غور ہے۔

روس نے اس سے قبل 2014 میں یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا کے ساتھ الحاق کے تناظر پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران بھی مغربی پابندیوں کا سامنا کیا تھا جس سے روسی کرنسی روبل کی قدر زمین بوس ہو گئی تھی اور روس میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی دیکھی گئی تھی۔

اس کے جواب میں ماسکو نے ایسے اقدامات متعارف کرائے ہیں جن کو ’قلعہ بند روس‘ کہا جاتا ہے جس سے نئی پابندیوں کی صورت میں روسی معیشت یا اس کا مالیاتی نظام تباہ نہیں ہوگا۔

روسی وزارت خزانہ کے مطابق یکم جنوری تک ملک کے خودمختار مالیاتی ادارے ’نیشنل ویلتھ فنڈ‘ کے اثاثوں کی مالیت 182 ارب ڈالر تھی جو اس کی جی ڈی پی کا تقریباً 12 فیصد حصہ بنتا ہے۔

ملک پر دیگر عالمی طاقتوں کے مقابلے میں بیرونی قرض کا حجم کم ہے اور مرکزی بینک کے پاس جمع کردہ غیر ملکی کرنسیوں کا بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔

ڈالر پر انحصار ختم کرنے کے لیے ماسکو کئی سالوں سے ’ڈی ڈالرائزیشن‘ پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے جس کے تحت روس نے چین اور بھارت جیسے اپنے بڑے تجارتی شراکت داروں سے ڈالر کی بجائے دیگر کرنسیوں میں ادائیگیاں کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گذشتہ سال روس نے کہا تھا کہ وہ اپنے نیشنل ویلتھ فنڈ سے ڈالر کو نکال دے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مغربی کنٹرول والے مالیاتی اداروں سے کٹ جانے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے روس نے اپنا ذاتی ادائیگی کا نظام MIR متعارف کرایا تھا جو روس اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔

یورپ اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بڑی حد تک روس کے تیل اور گیس کے عظیم ذخائر پر انحصار کرتا ہے اور ایک ایسے وقت جب پورے براعظم میں گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ماسکو مبینہ طور پر گیس کی سپلائی کو محدود کر رہا ہے۔

ماسکو کو بین الاقوامی ادائیگی کے نظام سے کاٹنا یورپ کی گیس کی درآمدات کے لیے ادائیگیوں کو پیچیدہ بنا دے گا جہاں گیس کی ایک تہائی سے زیادہ سپلائی روس سے آتی ہے۔

یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ روس اپنی توانائی پر انحصار کرنے والے یورپ کی سپلائی لائن کاٹ سکتا ہے۔

2014 میں عائد کی گئیں پابندیوں کے جواب میں ماسکو نے مغرب سے خوراک کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی اور درآمدات کی متبادل حکمت عملی نافذ کر دی تھی۔

اس اقدام کے تحت روسی کمپنیوں سے مطالبہ کیا گیا کہ یورپ سے خوراک کی درآمدات جیسے فرانسیسی اور اطالوی پنیر کو روک کر اس کی مقامی پیداوار شروع کریں۔ صدر پوتن نے ان پابندیوں کو خود انحصاری کے لیے ایک اہم موقع قرار دیا تھا۔

اگرچہ روس کی سیاسی اشرافیہ نے مغربی پابندیوں کے دباؤ کو محسوس نہیں کیا لیکن روسی عوام برسوں سے اس کا نشانہ بن رہی ہے۔ جن کی قوتِ خرید میں مسلسل کمی، بلند افراطِ زر اور کمزور ہوتے روبل کے ساتھ ان کا معیارِ زندگی مسلسل گر رہا ہے۔

روس کے مرکزی بینک نے 2014 سے قومی کرنسی کے تحفظ کے لیے حکمت عملی متعارف کروائی تھی لیکن یوکرین پر حالیہ کشیدگی میں اضافے کے بعد روبل کی قدر اب بھی گر رہی ہے۔

اس سے روسیوں کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے جو درآمد شدہ سامان خاص طور پر سمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کے لیے زیادہ ادائیگی کر رہے ہیں اور بیرون ملک سفر ہر گزرتے سال کے ساتھ مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔

لیکن ملک کی آبادی کو درپیش مسائل کے باوجود کریملن نے اپنا موقف نہیں بدلا ہے اور پولز بتاتے ہیں کہ پوتن کو اب بھی عوامی حمایت حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا