حوثیوں کے لیے لڑنے والے 2000 یمنی بچے ہلاک: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے پیش کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق دو ہزار کے قریب بچے، جنہیں یمن کی حوثی ملیشیا نے بھرتی کیا، جنوری 2020 سے لے کر مئی  2021 تک کے عرصے میں لڑائی کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔

نو بھرتی شدہ حوثی جنگجو 3 جنوری 2017 کو صنعا میں ایک اجتماع کے دوران فوجی گاڑی پر سوار ہو کر نعرے لگا رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے پیش کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق دو ہزار کے قریب بچے، جنہیں یمن کی حوثی ملیشیا نے بھرتی کیا، جنوری 2020 سے لے کر مئی  2021 تک کے عرصے میں لڑائی کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایرانی حمایت یافتہ باغی کیمپس اور کورسز کے ذریعے بچوں کو لڑائی کی ترغیب دی جاتی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ہفتے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجی گئی رپورٹ میں ماہرین نے کہا ہے کہ انہوں نے موسم گرما میں سکولوں اور مسجد میں لگائے گئے بعض کمیپس کے بارے میں چھان بین کی ہے جہاں حوثیوں اپنے نظریات کا پرچار کیا اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے خلاف سات سالہ جنگ کے لیے بچوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یمن میں قانونی حکومت کی بحالی کے لیے قائم اتحاد بھی اس حکومت کی حمایت کرتا ہے۔

اقوام متحدہ ماہرین کے چار رکنی پینل کے مطابق بچوں کو حوثیوں کے نعرے’امریکہ مردہ باد، اسرائیل اور یہودی مردہ باد اور اسلام کی فتح‘ لگانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایک کیمپ میں سات سال کے بچوں کو ہتھیار صاف کرنے اور راکٹوں سے  بچنے کی تربیت دی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے 10 کیسز کو دستاویزی شکل دی جن بچوں کو یہ بتانے کے بعد لڑنے کے لیے لے جایا گیا کہ انہیں ثقافتی کورسز میں داخلہ دیا جائے گا۔

نو کیس ایسے تھے جہاں ان کے خاندانوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی گئی یا اس سے انکار کر دیا گیا ’صرف اس بنیاد پر کہ آیا ان کے بچوں نے لڑائی میں حصہ لیا یا اساتذہ نے حوثی نصاب پڑھایا۔‘

ایسا بھی ایک کیس سامنے آیا جس میں فوجی تربیت حاصل کرنے والے بچے پر جنسی تشدد کیا گیا۔

ماہرین کے پینل نے مزید کہا ہے کہ  انہیں حوثیوں کی طرف سے بھرتی کیے گئے ان 1406 بچوں کی فہرست موصول ہوئی ہے جو 2020 میں میدان جنگ میں مارے گئے۔ باغیوں کے بھرتی کیے گئے ان 562 بچوں کی فہرست بھی ملی ہے جو جنوری اور مئی 2021 کے درمیان میدان جنگ میں ہلاک ہوئے۔

ماہرین کے مطابق ’ان بچوں کی عمریں 10 سے 17 برس کے درمیان تھیں اور ان کی نمایاں تعداد عمران، ذمار، حجہ، حدیدہ، اِب، صعدہ اور صنعا میں ماری گئی۔‘

یمن 2014 سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ اس سے پہلے حوثیوں نے دارالحکومت صنعا اور ملک کے زیادہ تر شمالی حصے پر قبضہ کیا اورحکومت کو پہلے ملک جنوب میں اور بعد میں سعودی عرب فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر 2015 میں عرب ریاستوں نے اتحاد تشکیل دیا جسے اب یمن میں قانونی حکومت کی بحالی کے لیے قائم اتحاد کہا جاتا ہے۔ یہ اتحاد اس حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس تنازعے نے دنیا کا بدترین انسانی بحران کو جنم دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد خوراک اور علاج معالجے کی سہولتوں کی کمی کا شکار ہیں۔ لڑائی کی وجہ سے ملک قحط کے دہانے کی طرف جا رہا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں لڑائی زمینی محاذوں پر منتقل ہونے کے نتیجے میں حملے بڑھے اور صوبہ مارب جس کے لیے لڑائی ہو رہی ہے، میں حکومت کی حامی فورسز کو کامیابیاں ملی ہیں۔ حوثی اس صوبے پر قبضے کے لیے ایک سال سے زیادہ عرصے سے کوششوں میں مصروف ہیں۔ اتحاد کے فضائی حملوں کے بعد حوثیوں نے متحدہ عرب امارات میں دو حملے کیے جن میں ڈرنز اور میزائل استعمال کیے گئے۔ ابوظہبی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہونے والے ان حملوں میں تین افراد ہلاک ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرین کے پینل نے کہا کہ حوثیوں نے سعودی عرب پر فضائی اور سمندر کے راستے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی سرحد کے قریب اہداف کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے اور عام طور پر یہاں ہفتے میں کئی بار ڈرونز اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے  راکٹوں کے ساتھ حملہ کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب میں بھی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جن میں کبھی کبھار طویل فاصلے تک پرواز کرنے والے ڈرونز، کروز اور بیلسٹک میزائل استعمال کیے جاتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ’بنیادی طور پر ان حملوں کا مقصد سیاسی ہے۔ حوثی ریاض کو ایسا سیاسی حل قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں جو ان کے فائدے میں ہو۔ یہ کارروائی یمن کے اندر میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے کی جانے والے حملوں سے بالکل مختلف جن کا مقصد اکثر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرنا ہوتا ہے۔‘

تین سو تین صفحات پر مبنی رپورٹ کے مطابق یمن کی لڑائی میں انسانی ہمدردی اور حقوق سے متعلق قانون کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا