حیدرآباد: لاپتہ افراد کے ’بلا معاوضہ‘ کیس لڑنے والے وکیل

وکیل غلام اصغر میربحر کا کہنا ہے کہ سندھ میں 2006 سے سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جبری گمشدگیاں شروع ہوئیں تو انہوں نے انسانی بنیادوں پر مقدمات لڑنا شروع کیے اور اب تک وہ 1200 تک مقدمے لڑ چکے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد کے وکیل غلام اصغر میربحر کا کہنا ہے کہ وہ 1200 سے زائد لاپتہ افراد کے مقدمے لڑ چکے ہیں، جن میں سے اکثر کی انہوں نے کوئی فیس نہیں لی۔

 غلام اصغر 2002 سے کرمنل اور آئینی کیسز میں وکالت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدموں میں کچھ لوگ فیس دیتے تھے اور زیادہ تر نہیں مگر انہیں اس سے غرض نہیں کیونکہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیس لڑتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں غلام اصغر میربحر نے بتایا:  ’2006 میں جب لوگ جبری گمشدہ ہونے لگے تھے تو ان میں زیادہ تر سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان تھے۔ اس وقت سندھ خاص طور پر حیدرآباد میں کوئی بھی ان کا کیس لینے کے لیے تیار نہیں تھا، سب گھبراتے تھے۔‘

ان کے مطابق: ’کچھ سینیئر وکلا تھے جو ان کیسز کی بھاری فیس لیتے تھے تو وہ فیس سیاسی کارکنان کے ورثا نہیں بھر سکتے تھے، اسی لیے میں نے انسانی ہمدردی کے طور پر جبری گمشدہ لوگوں کے مقدمات لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس دن سے آج تک میں یہ مقدمات لڑ رہا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جن افراد کے مقدمات لڑے ہیں ان میں مظفر بھٹو، آصف بالادی، جی ایم بھگت، چیتن بجیر، احمد تونیو اور مولا بخش نوحانی سمیت دیگر افراد شامل ہیں اور یہ مقدمات اب تک چل رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غلام اصغر کے مطابق: ’ان سیاسی کارکنان پر دھماکہ خیز مواد اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات قائم کرکے انہیں انسداد دہشت گردی عدالتوں میں بھیجا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’میں نے سیاسی قیدیوں سمیت دیگر افراد کے 1200 تک مقدمات لڑے ہیں اور کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں جس میں قیدی کو سزا ہوئی ہو۔‘

ان کے بقول کچھ سیاسی مقدمات اب بھی چل رہے ہیں، جو وہ خاص طور پر انسانی ہمدردی کے بنیاد پر ہی لڑ رہے ہیں۔ ’کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو فیس بھی برداشت نہیں کر سکتے تو میں مفت میں ان کے مقدمے لڑتا ہوں۔‘

غلام اصغر میربحر نے جن لاپتہ افراد کو بری کروایا ہے ان میں احمد تونیو بھی شامل ہیں۔

 انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر احمد تونیو نے اپنی گمشدگی کے بارے میں بتایا: ’2005 میں مجھے لاپتہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال ٹارچر سیل میں رکھا گیا تھا، اس کے بعد حیدر آباد سینٹرل جیل منتقل کیا گیا، جہاں ہم تقریباً 16 دوست تھے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم بنیادی طور پر غریب کسان کی اولاد ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس کسی بڑے وکیل کی فیس بھرنے کے پیسے نہیں تھے۔ پھر ہمارے ورثا نے حیدرآباد کے وکیل غلام اصغر میربحر سے رابطہ کیا۔ غلام اصغر نے کہا کہ فیس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں آپ کے مقدمات لڑوں گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا