الطاف حسین کی تقریر یاد کرکے عینی شاہدین آج بھی خوفزدہ

لندن کی عدالت نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور نفرت انگیز تقاریر کے مقدمے میں باعزت بری تو کردیا ہے، تاہم 22 اگست 2016 کی اس تقریر کو کچھ عینی شاہدین یاد کرکے آج بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔

لندن کی کنگسٹن کراؤن عدالت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزامات ثابت نہ ہونے پر باعزت بری کر چکی ہے، تاہم 22 اگست 2016 کی اس تقریر کو کچھ عینی شاہدین یاد کرکے آج بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔

22 اگست کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی کراچی کے پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کا تیسرا روز تھا، جب الطاف حیسن نے اپنی تقریر میں پاکستان مخالف نعارے لگائے، جسے سننے کے بعد کارکنان مشتعل ہوگئے اور انہوں نے نجی نیوز چینل ’اے آر وائے‘ کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔

اس روز اسی جگہ اپنی ڈیوٹی پر موجود کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی عاطف حسین نے انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اس دن پریس کلب کی باؤنڈری وال کے ساتھ ایک پنڈال لگا ہوا تھا، جس میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ممبران موجود تھے۔ یہ ان کی جانب سے جاری بھوک ہڑتال کا تیسرا روز تھا۔ یہ دھرنا ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنان کی بازیابی کے لیے دیا جا رہا تھا، جن کے بارے میں ایم کیو ایم یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس وقت خبر آئی کہ وزیر داخلہ پرویز رشید نے ایک شرط رکھی ہے کہ وہ اسی صورت میں ایم کیو ایم کے دھرنے پر آئیں گے جب اس جماعت کے ارکان ان سے مذاکرات کے بعد یہ دھرنا ہر صورت میں ختم کر دیں گے، لیکن اس دن الطاف حسین نے معمول سے پہلے اپنی تقریر شروع کر دی تھی۔‘

’عام طور پر الطاف حسین اس دھرنے سے چار بجے کے قریب ٹیلی فون پر خطاب کرتے تھے، جسے صرف پنڈال میں ہی نہیں بلکہ کراچی پریس کلب کے اطراف ہر جگہ نصب بڑے بڑے سپیکروں کے ذریعے نشر کیا جاتا تھا۔ اس دن خطاب عام دنوں کی طرح شام چار بجے نہیں بلکہ تین بجے ہی شروع ہوگیا، جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا، جس کے بعد الطاف حسین نے زور زور سے پاکستان مخالف نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اس وقت پنڈال میں ٹیلیفون کے پاس ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما عامر خان بھی بیٹھے تھے۔‘

عاطف نے بتایا کہ ’تقریر سنتے ہی ایم کیو ایم کارکنان مشتعل ہوگئے اور بڑی تعداد میں اکٹھے ہو کر اے آر وائے نیوز کے دفتر کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں اے آر وائے کا نام لے کر دیگر نیوز چینلوں کی نسبت ان کی خبریں غلط پہلو سے نشر کرنے کا الزام لگایا۔ دوسری یہ کہ اے آر وائے کا دفتر کراچی پریس کلب سے انتہائی قریب یہاں سے صرف چند قدم پر موجود ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’کارکنان الطاف حسین کی تقریر کے بعد اس قدر مشتعل ہو گئے کہ رابطہ کمیٹی کے کسی رکن کے بھی قابو نہیں آئے۔ میں نے یہ تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس کے بعد جو ہوا میرے لیے انتہائی حیران کن تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی دن اے آر وائے سے وابستہ صحافی فیض اللہ بھی یہاں موجود تھے، جب ایم کیو ایم کے کارکنان نے ان کے دفتر پر حملہ کیا۔

صحافی فیض اللہ نے بتایا: ’اس دن اتنی بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کے کارکنان کو اے آر وائے کے دفتر کی طرف آتے دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا تھا۔ وہ ایک ہجوم کی صورت میں ہمارے دفتر پہنچ گئے اور اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں آج سے چھ سال قبل اس دن اپنے دفتر کے داخلی راستے کے سامنے روڈ پر کھڑا تھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ الطاف حسین کی تقریر کے بعد کارکنان اس طرح ہمارے دفتر پر حملہ کردیں گے۔ کارکنان کی اے آر وائے نیوز کی عمارت کی نشاندہی کر دی گئی تھی، جو عین فوارہ چوک اور زینب مارکیٹ کے ساتھ واقع ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس ہجوم میں مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے سب شامل تھے۔ کچھ لوگ سیڑھیوں جبکہ دیگر افراد لفٹ سے دفتر کے ریسیپشن پر پہنچے، جس کے بعد انہوں نے توڑ پھوڑ شروع کردی۔ میرے کئی ساتھی مشتعل ہجوم سے ڈر کر عمارت سے باہر نکل آئے، جہاں چاروں طرف اس عمارت کی جانب آنے والی سڑکوں پر ایم کیو ایم کے کارکنان موجود تھے۔ انہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس، شیلنگ اور لاٹھی چارج شروع کردیا تھا۔‘

فیض اللہ نے بتایا کہ ’اس دن کا منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے تو میں خوف زدہ ہوجاتا ہوں۔ ہمیں بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ الطاف حسین کی تقریر کے بعد اے آر وائے نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا جائے گا اور اس قدر ہنگامہ آرائی ہوگی۔‘

کراچی جناح ہسپتال کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی کے مطابق 22 اگست 2016 کو ایم کارکنان کی ہنگامہ آرائی کے بعد ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے، جنہیں جناح ہسپتال لایا گیا تھا۔ 

چھ سال قبل اس واقعے کے پیش نظر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اپنے بانی الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔

28 اکتوبر 2018 کو الطاف حسین کے بعد پارٹی کے اہم ترین رکن فاروق ستار کو بھی پارٹی کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر نکال دیا گیا، جنہوں نے بعد میں اپنی تنظیم قائم کرلی۔

لندن کے کنگسٹن کراؤن کورٹ نے اب بانی ایم کیو ایم کو اپنی نفریت انگیز تقاریر کرنے اور کارکنوں کو دہشت گردی پر اکسانے کے الزامات سے بری کردیا گیا ہے۔ 

فاروق ستار کا الطاف حسین کو لندن کی عدالت سے بری کیے جانے کے فیصلے پر کہا: ’22 اگست کا فیصلہ لندن کی عدالت میں آچکا ہے مگر پاکستان میں اس واقعے سے جڑے ہم پر بنائے گئے مقدمات آج بھی چل رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’برطانیہ کی عدالت کی 12 رکنی جیوری نے جو فیصلہ لیا ہے اسے پوری دنیا میں ایک سند کے طور پر لیا جائے گا۔ پاکستان مخالف نعروں کی وجہ سے ہم نے بانی ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ ان نعروں کا مقدمہ آج بھی پاکستان میں چل رہا ہے۔ جب تک اس کا فیصلہ نہیں آتا میں کسی کو محب وطن یا غداد قرار نہیں دے دسکتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان