ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات: پولیس کیوں بے بس نظر آتی ہے؟

سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کے مطابق ’یہ واقعات اس لیے زیادہ ہو رہے ہیں کیوں کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ قانون کی گرفت ڈھیلی ہے۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا کے  ضلع صوابی کی تحصیل رزڑ میں  ایک بڑے مشتعل ہجوم نے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) آفس میں ایک افسر پر توہین رسالت کا الزام لگا کر ان کو مارنے کی کوشش کی جو ناکام بنا دی گئی (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو) 

رواں ماہ خانیوال میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں مشتعل افراد نے ایک ادھیڑ عمر شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ قتل کیے جانے والے شخص کے ذہنی مریض ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

علاقے کی پولیس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے اس قتل میں درجنوں افراد شامل تھے۔

ہجوم نے توہین مذہب کو بنیاد بنا کر اس شخص کو پہلے بے دردی سے مارا اور پھر اس کی لاش کو درخت سے لٹکا دیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مرنے والے کی لاش کو موقع پر موجود پولیس اس وقت درخت سے اتارنے میں کامیاب ہوئی جب مشتعل ہجوم مکمل طور پر منتشر ہو گیا تھا۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ برس دسمبر کی تین تاریخ کو سیالکوٹ میں بھی مبینہ توہین مذہب کے الزام میں ایک فیکٹری کے سری لنکن مینیجر کو مشتعل مجمعے نے پہلے ماورائے عدالت  قتل کیا اور اس کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

چند روز قبل فیصل آباد میں ہی ایسا ایک اور واقعہ پیش آنے سے پولیس نے بروقت روک لیا تھا جہاں مشتعل افراد نے ایک شخص کو توہین مذہب کی بنیاد پر مار مار کر زخمی کیا مگر پولیس نے بروقت اسے بچا کر ایک نامعلوم مقام پر منتقل کیا بعد ازاں اس شخص کے خاندان کو بھی پولیس نے نامعلوم مقام پر منتقل کیا تھا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماورائے قانون قتل کے واقعات کے اعداوشمار کے حوالے سے کمیشن کے پاس کوئی ایسی معلومات نہیں ہیں نہ ہی ان کا ریکارڈ رکھنے کے لیے کوئی مخصوص کیٹیگری بنائی گئی ہے۔

البتہ ایچ آر سی پی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ’لنچنگ‘ یعنی ہجوم کے ہاتھوں قتل کے پانچ واقعات کی تفصیلات فراہم کیں جو مقامی و غیر ملکی میڈیا پر رپورٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈٰیا پر بھی ٹرینڈ ہوئے تھے۔

ان پانچ میں سے زیادہ تر واقعات توہین مذہب کو بنیاد بنا کر پیش آئے۔ ایچ آر سی پی کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق: نومبر 2014 میں ایک مسیحی میاں بیوی کو توہین مذہب کے الزام میں صوبہ پنجاب کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں پہلے مشتعل افراد نے مارا اور اس کے بعد انہیں آگ لگا دی۔

ایچ آر سی پی کے مطابق مارچ 2015 میں ایک ہی دن لاہور کے مسیحی علاقے یوحنا آباد میں مسیحی عبادت گاہوں کرائسٹ چرچ اور سینٹ جونز چرچ  میں خود کش دھماکے ہوئے۔ دھماکوں کے بعد مشتعل افراد نے دو افراد کو شک کی بنیاد پر خوکش بمبار سمجھتے ہوئے مار ڈالا تھا۔ مارنے کے بعد دونوں لاشوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعل خان کو مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد پوسٹ کرنے کی بنیاد پر یونیورسٹی کے اندر مشتعل ہجوم نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

مئی 2017 میں بھی بہاولپور کے علاقے لودھراں میں ہجوم نے دو افراد کو ایک گھر میں ڈکیتی کے الزام میں اتنا مارا کہ وہ دونوں جان سے چلے گئے۔ 

دسمبر 2021 میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن شہری پرینتھا کمارا کو بھی مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ماورائے قانون موت کے گھات اتار دیا تھا۔

اس سے پہلے دیکھا جائے تو میڈیا رپورٹس کے مطابق  اگست 2010 میں سیالکوٹ میں ہی دو بھائی مغیث اور منیب ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ ان پر تشدد کرکے مارنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں دیکھا جا سکتا تھا کہ اس وقت وہاں مقامی پولیس بھی موجود تھی جس نے مشتعل افراد کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔

ان دونوں بھائیوں کو ڈکیتی کے شک میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ جان سے چلے گئے۔

پولیس لنچنگ کے واقعات میں بے بس کیوں ہو جاتی ہے؟

پنجاب پولیس کے ایک سینیئر افسر خرم ڈوگر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس میں بہت سارے عناصر ہیں جو پولیس کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو معاشرے میں پھیلی مذہبی انتہا پسندی ہے۔ چوں کہ پولیس والے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور جو کوئی بندہ مقدس آیات کی بے حرمتی یا ایسے کسی واقعے میں عوام کے ہتھے چڑھ گیا ہو تو زیادہ تر پولیس والے بھی اس کو غلط اور تشدد کرنے والی عوام کو درست سمجھتے ہیں۔‘

خرم ڈوگر کہتے ہیں کہ دوسری بات تربیت، انسانی وسائل اور تعداد کی کمی ہے۔

ان کے مطابق: ’تھانوں کی پولیس اس قسم کے ہجوم کو قابو کرنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہے۔ نہ ان کی اتنی تعداد ہے نہ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ ایسے ہجوم کو روک سکیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں اس قسم کے ہجوم سے نبرد آزما ہونے کے لیے اینٹی رائٹ یونٹ ہوتے ہیں جو موقعے پر کارروائی کرتے ہیں۔

خرم کے خیال میں ’پولیس کے تربیتی اداروں میں تربیت دینے والوں کا تعلق ہر مذہب رنگ نسل سے ہونا چائیے۔ میں نے آج تک ٹریننگ سنٹرز میں سوائے مسلمانوں کے کسی عیسائی، ہندو، سکھ یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو نہیں دیکھا جو ٹرینرز ہوں۔ اس قسم کے سیشن بھی نہیں دیکھے جس میں بتایا جائے کہ عیسائی، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں اور ان کی جان بھی اتنی ہی مقدم ہے جتنی باقی سب کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’گذشتہ برس 90 کے قریب ماوارائے عدالت قتل کے کیسز رپورٹ ہوئے لیکن مسئلہ شماریات کا نہیں ہے کہ پانچ کیسز ہوئے یا 10۔ لنچنگ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں انسان کی جان چلی جائے، میرے خیال میں تو کسی کو مارنے کی کوشش کے کیس بھی رپورٹ ہونے چاہییں اور ایسے کیسز پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اصل بات رجحان کی ہے۔ جب فسطائیت کسی معاشرے میں پھیلتی ہے تو دیکھنا ہوتا ہے کہ رحجانات کیا ہیں؟ پاکستان میں رحجان ہے عدم رواداری کا یا اپنے سے مختلف کسی بھی رائے کو کچل دینے کا۔ کسی بھی ایسے مرد و زن کو اس بات کی اجازت ہی نہ دینا کہ وہ اپنی بات کہہ سکے جو کہ ایک مستحکم اور مسلط بیانیے سے مختلف ہو۔ یہ بیانیہ سیاسی بھی ہے، سماجی اور مذہبی بھی۔ اس کی کئی پرتیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس عدم رواداری کے رواج کی کچھ مادی وجوہات بھی ہیں اور وہ یہ کہ پاکستان کے کم عمر اور نوجوانوں کے غصے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس غصے کے بہت سے اسباب ہیں جس میں ان کی کم علمی اور بے روزگاری کا ایک مرکب پاکستان میں تشکیل دیا گیا ہے۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کی جانب سے جاری ایک رپورٹ ’ہیومن رائٹس آبزرورز 2022‘ کے اعداد شمار کے مطابق سال 2021 میں 84 افراد کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت توہین مذہب کا ملزم ٹھہرایا گیا۔

تین افراد جن میں سری لنکن فیکٹری مینیجر پرینتھا کمارا بھی شامل ہے کو لنچنگ اور ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں توہین مذہب کی کیسسز کی تعداد 68 تھی جس کے سبب توہین مذہب کے ملزمان کی شرح صوبے میں سب سے زیادہ 80 فیصد رہی جو کہ ایک بڑھتا ہوا رحجان ہے۔ یہ شرح گذشتہ 34 برس سے 75 فیصد سے اوپر تھی۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کچھ عرصہ سے ماورائے عدالت قتل کو ’موب جسٹس‘ بھی کہا جارہا ہے حالانکہ کہ یہ طریقہ انصا ف کے تقاضوں کے منافی ہے۔

یہ رحجان اس لیے بڑھا ہے کیوں کہ لوگوں میں لاقانونیت کا ادراک ختم ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم اعدادوشمار کو سامنے رکھیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ پرتشدد جرائم میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ محرکات اور نتائج اس رحجان کو اس طرح بڑھاوا دیتے ہیں کہ ایک طرف تو وہ لوگ جو جرائم پیشہ ذہنیت رکھتے ہیں وہ جرائم کے لیے اور زیادہ آمادہ ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب جو قانون نافذ کرنے والے ادارے یا پولیس ہے ان کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔‘

’تیسرا ہمارے نظام انصاف پر بوجھ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی بھی سست ہو جاتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ واقعات اس لیے زیادہ ہو رہے ہیں کیوں کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ قانون کی گرفت ڈھیلی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان