دریائے ہنزہ میں چینی انجینیئرز کو بچانے والے سابق فوجی کی داستان

حاجی فیض محمد نے 1976 میں بحیثیت ریسکیو آپریٹر شاہراہ قراقرم کی تعمیر کرنے والے چینی انجینیئرز سمیت 26 افراد کو ڈوبنے سے بچایا تھا، جس پر انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے انعام و اکرام سے نوازا گیا جبکہ چینی حکومت نے بھی انہیں سراہا۔

صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی کے علاقے ماڑی شہر کے ایک سابق فوجی فیض محمد نے آج سے کئی عشرے قبل 10 چینی انجینیئرز سمیت 26 افراد کو ہنزہ میں دریا کی تندو تیز لہروں سے ڈوبنے سے بچایا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں حاجی فیض محمد نے بتایا کہ 1976 میں جب پاکستانی افواج اور چینی ماہرین کی زیر نگرانی شاہراہ قراقرم کی تعمیر ہو رہی تھی تو دریا عبور کرنے کے لیے پاک فوج نے گلمت نامی گاؤں میں دریائے ہنزہ کے آر پار آہنی رسوں اور انجن والی کشتیوں کی مدد سے ایک عارضی پُل (رافٹ) تیار کیا تھا، جس پر سے مقامی افراد اور گاڑیاں گزرتی تھیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں دریا کا پاٹ بہت چوڑا تھا اس لیے اس مقام پر پل کی فوری تعمیر ممکن نہ تھی۔ اسی رافٹ پر آہنی کشتیاں بنائی گئی تھیں جن کے اوپر ایک ٹرک بھی تھا۔ اس ٹرک پر سامان کے اوپر کئی لوگ بیٹھے تھے کہ اچانک ایک آواز سنائی دی اور اس کے بعد چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ لوہے کی تار ٹوٹنے سے آپس میں جڑی ہوئی کشتیاں کُھل گئی تھیں اور عارضی پُل دریا پر دھیرے دھیرے بہنے لگا تھا۔

بقول حاجی فیض محمد: ’ٹرک کے اوپر بیٹھے افراد، جن میں پاکستانی فوج کے جوان اور چینی انجینیئرز کے علاوہ مقامی افراد بھی تھے، گھبراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں چیخ و پکار کر رہے تھے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ بچاؤ بچاؤ پکار رہے تھے۔‘

’اس وقت میری ڈیوٹی ریسکیو آپریٹر کی تھی۔ مجھے حکم ملا کہ آپ فوری طور پر پہنچیں۔ میں نے چھوٹی کشتی سٹارٹ کی اور فوری طور پر پہنچ گیا اور لوگوں کو ریسکیو کرنا شروع کردیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حاجی فیض کے بقول: ’سب سے پہلے میں نے ڈوبتے چینی انجینیئرز کو بچایا اور اس کے بعد مقامی لوگوں کو بچانا شروع کر دیا۔ اسی دوران مزید پانی آنے سے سطح بلند ہونے لگی۔ ہم نے اس وقت یہ کیا کہ جو بندہ ڈوبنے لگتا تھا، اسے سب سے پہلے بچاتے تھے۔ میں کشتی پر سوار ہو کرڈوبتے لوگوں کو کشتی میں ڈال کر کنارے پر آتا تھا اور پھر جلدی سے واپس چلا جاتا تھا۔‘

’مقامی لوگ سانس روکے اس خطرناک مرحلے کو دیکھ رہے تھے۔ دریا سے نکالنے اور کنارے تک پہنچانے کا کام مسلسل جاری رہا۔ کچھ لوگ پانی میں غائب بھی ہوگئے، جبکہ دوسروں کے تیرتے سر کنارے پر کھڑے لوگوں کو نظر آرہے تھے۔ تیزی سے دریا کی رو میں بہنے کے باوجود جھُکا ہوا ٹرک پوری طرح سے نہیں اُلٹا، بلکہ یونہی بہتا رہا۔‘

’آخر میں ٹرک پر موجود ایک بزرگ خاتون، جو مضبوطی سے ٹرک کے ساتھ چپک کر بیٹھی تھیں، کو بھی جائے حادثہ سے تقریباً دو کلومیٹر دور جنوب کی جانب سے ایک چھوٹی کشتی میں بحفاظت بٹھا کر دریا کنارے پہنچا دیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد میری خدمات کے اعتراف میں مجھے تمغہ خدمت ملٹری اور تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔ مجھے آج تک ہنزہ کے لوگ اس واقعے پر یاد رکھتے ہیں اور حکومت پاکستان نے بھی مجھے خانیوال میں ساڑھے 12 ایکڑ زمین انعام کے طور پر دی۔ چینی حکومت نے بھی میری خدمات کو سراہا۔‘

حاجی فیض محمد اب ماڑی شہر جیسے پرسکون قصبے میں زندگی کے ایام گزار رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی