رفیق تارڑ کا وکیل سے صدر پاکستان بننے تک کا سفر

رفیق تارڑ ملک کے ان سویلین صدور میں سے ایک تھے جو اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل نہ کرسکے اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

یکم جنوری 1998 کو رفیق تارڑ اسلام آباد میں صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے (اے ایف پی)

عدالتی حکم امتناع پر صدر مملکت کا انتخاب لڑنے والی واحد پاکستانی سیاسی شخصیت سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ لاہور میں انتقال کرگئے۔

رفیق تارڑ ملک کے ان سویلین صدور میں سے ایک تھے جو اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل نہ کرسکے اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

وہ فاروق لغاری کے مستعفی ہونے کے بعد صدد مملکت کے منصب پر فائز ہوئے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے 2001 میں انہیں عہدے سے ہٹایا۔

دو نومبر 1929 کو پنجاب کے علاقے پیر کوٹ میں پیدا ہونے والے رفیق تارڑ کئی آئینی عہدوں پر فائز رہے اور وکالت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے صدر مملکت کے عہدے تک پہنچے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کے بارے میں ایک متنازع انٹرویو دینے کی وجہ سے رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے تھے۔

تاہم انہوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کیا اور یوں وہ صدر پاکستان کا انتخاب لڑنے کے اہل ہونے والے واحد صدر بنے۔

رفیق تارڑ نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کی اور پھر کچھ عرصے بعد ضلعی عدلیہ سے منسلک ہوگئے۔

وہ اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نقاد بھی رہے۔

سیشن جج کے عہدے سے رفیق تارڑ لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور پھر اسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔

1994 میں وہ 65 برس کے ہونے پر سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے اور پھر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پنجاب سے سینیٹر بنے۔

نواز شریف کے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے اور تنازع شدت اختیار کر گیا تو سینیٹر رفیق تارڑ نے نواز شریف کا ساتھ دیا۔

اسی تنازعے کے دوران سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار اقبال، جو سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے سسر تھے نے اپنے گھر میں ایک پریس کانفرنس کی۔

راقم اس پریس کانفرنس میں موجود تھا جس میں جسٹس سردار اقبال نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ میڈیا سے دور رہتے ہیں لیکن اپنے دوست جسٹس ریٹائرڈ رفیق تارڑ کے کہنے پر پریس کانفرس کررہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان تنازعے کے دوران سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں جسٹسز پر مشتمل بینچ نے اپنے چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ دیا۔

اس فیصلے سے جسٹس سجاد علی شاہ کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ مختلف حلقوں میں یہ بات گردش کرتی رہی کہ اس فیصلے کے پیچھے سینیٹر رفیق تارڑ کا اہم کردار رہا ہے اور ان کی کوششوں سے یہ فیصلہ آیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی پوزیشن کمزور ہونے کے بعد اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری، جو ان کے ساتھ تھے، اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

نئے صدر مملکت کے لیے سینیٹر رفیق تارڑ نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے لیکن چیف الیکشن کمشنر اور سپریم کورٹ جسٹس مختار جونیجو نے ہفت روزہ ’تکبیر‘ میں عدلیہ مخالف انٹرویو پر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے۔

رفیق تارڑ نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو جسٹس ملک محمد قیوم نے انہیں مشروط طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے رفیق تارڑ کی درخواست منظور کرلی اور چیف الیکشن کمشنر کے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔

صدارتی انتخاب میں رفیق تارڑ نے اپنے مدمقابل سابق وزیر دفاع اور پیپلز پارٹی کے رہنما آفتاب شعبان معرانی کو شکست دی اور صدر مملکت بن گئے۔

سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت ختم کی لیکن رفیق تارڑ کو عہدے سے نہیں ہٹایا۔

تاہم جنرل مشرف جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کے لیے بھارت جانے لگے تو انہوں نے رفیق تارڑ کو عہدے سے ہٹا کر خود صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا۔

سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ صدر مملکت کے عہدے کے لیے رفیق تارڑ اپنی نامزدگی پر شدید حیران ہوئے تھے۔

رفیق تارڑ مذہبی خیالات رکھتے لیکن انہیں مذاق پسند تھا۔ سینیٹر بننے کے بعد انہوں نے ایک مقامی اردو اخبار میں کالم نگاری بھی کی۔

رفیق تارڑ سابق وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ کے سسر اور مسلم لیگ نون کے رہنما عطا تارڑ کے دادا تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست